تجھے بھی عشق ہو جائے گا۔ (قسط نمبر6)
پیر صاحب مہمان خانے کی کھڑکی سے بار بار گھپ اندھیرے میں جھانک رہا تھا ۔لیکن گہری تاریکی میں اسے دور تک کجھ نظر نہیں آرہا تھا۔ نہ کہیں روشنی تھی نہ کوئی آواز ھر طرف خاموشی چھائی ھوئی تھی۔ وہ ناامید ہوکر دیوار پر لگے گھڑیال کو دیکھنے لگا، یوسف، ابھی تک حویلی نہیں پہچا کہاں مر گئے۔ یہ لوگ، کہیں وہ۔۔۔۔” پیر صاحب بڑبڑایا اندیشو کی یلغار نے اسے پریشان کر دیا تھا لیکن نہیں۔ یوسف اسے چھوڑ کر بھلا کہاں اور کیوں جائے گا۔ کون ھے۔ اس کا اس دنیا میں پچپن سے اسی نے تو پالا ھے، لیکن اس وقت وہ بچہ تھا ۔اور اس کا ھر حکم مان لیتا تھا پر اب وہ جوان ھوچکا ھے اور کبھی کبھی اس ۔کی آنکھوں میں بغاوت نظر آتی تھی۔
وہ انہیں اندیشو میں ڈوبا ھوا تھا ۔کہ اچانک باھر اس کی جیپ کے ھارن کی آواز آتی ھے وہ بیقراری سے اٹھا ۔اور حویلی کے گیٹ کی طرف لپکا وہ دونوں محافظ جو اس کے خاص آدمی تھے یوسف کو لئے گاڑی سے۔ اترے اس کے پاس آئے اور ادب سے کھڑے ہوگئے یوسف ان دونوں کے۔ درمیان کھڑا تھا، تم دونوں جاؤ پیر صاحب نے ان دونوں کو جانے حکم دیا ۔اور یوسف کی طرف دیکھ کر بولے یہ آج تم نے کیا کردیا بیٹا۔تم جانتے ھو تمھاری اس حرکت سے کتنے لوگوں کی جان جاسکتی تھی۔ نفرت کرتا ھوں میں ان لوگوں سے جتنی نفرت وہ مجھ سے کرتے ھیں۔ یوسف نے ڈرتے ۔اور کھانپتے ھوئے بالاآخر اسے جواب دے ھی ڈالا
مزید پڑھیں۔۔تجھے بھی عشق ہوجائے گا۔قسط نمبر
یوسف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیر صاحب چیخ اٹھے تم جانتے ھو کس سے بات کررھے۔ ھو باپ کی طرح پالا ھے میں نے تجھے اور میں نے تجے اس وقت سہارا دیا تھا۔ جب تیرے اپنے تجھے چھوڑ چکے تھے منحوس سمجھتے ھیں۔ تجھے جنات کا سایہ تھا تج پر میں نے ھی ان جنات کو روک کر رکھا ھے۔ اج تو میری وجہ سے زندہ ھو۔ پیر صاحب چیخ چیخ کر اس پر اپنے سارے احسانات جتا رہا تھا۔ اور وہ سر جھکائے سنتا رھا ۔پھر اس کی طرف دیکھتے ھوئے بولا میں نے بھی تو ھمیشہ آ پ کا ھر حکم مانا ھے۔ بس آج بارش ھوگئی اور کوئی لڑکی دوڑتی ھوئی۔ میری طرف ائی اور میں خود کو روک نہ پایا۔ کیوں روک نہ پائے۔ پیر صاحب نے اس کی طرف تیز نظروں سے گھورتے ھوئے
پوچھا کیوں کہ میں حیران رھ گیا کہ پہلی بار کوئی مجھے محبت سے دیکھ رھا تھا۔ میں تھک گیا ھوں سونے جارھا ھوں ۔اور آئیندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگا۔وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگا اور پیر صاحب شک کی نگاھوں سے اسے جاتے ھوئے دیکھتا رھا۔ کمرے میں آکر اس نے کنڈی لگائی۔ اور کرسی کھینچ کر آتش دان کے آگے بیٹھ گیا آگ سے ۔اس نے سگریٹ جلائی اور کش لینے لگا، اسے اس حویلی میں ھر چیز مہسر تھی۔ صرف باھر جانے کی اجازت نہ تھی وہ سوچ رہا تھا کہ آخر کون تھی۔ وہ لڑکی اور کیا چاہتی تھی اس سے۔ لوگ تو اس سے نفرت کرتے ھیں پر اس کی آنکھوں تو محبت تھی،
مزید پڑھیں۔۔تجھے بھی عشق ہوجائے گا۔قسط نمبر
وہ انہیں سوچوں میں غم تھا اچانک اسے کسی جانور کے چیخنے کی آواز آئی جیسے کوئی اسے ذبح کر رھا ھو۔ لیکن وہ ڈرا نہیں کیونکہ اس طرح کی آوازیں ۔آنا اس حویلی میں کوئی نئی بات نہیں تھی رات کے 3 بج چکے تھے ۔وہ پیر صاحب کے غصے کی وجہ سے پریشان تھا ااس لئے سو نہیں پارھا تھا اس نے سوچا شاید وہ جاگ رھے ھوں وہ اسے منانے کے لئے ان کے کمرے کی طرف جانے لگا اور ان کے کمرے کی کھڑکی۔ پر رک گیا کیونکہ اندر سے بھاری آواز ارھی۔ اس کا نام غزالا ھے وہ ساتھ۔ والے گاؤں کے کرم دین کی پہلی بیوی کی بیٹی ھے . یوسف نے کھڑکی کی اوٹ سے۔ دیکھا کہ پیر صاحب کی غصے میں اکھیں سرخ تھی
اور خون سے لت پت تھے ۔اور چھری سے کسی جانور کی کھال پر کٹ لگاتے جارھے تھے اور کہھ رھے تھے ۔اے عزازیل (شیطان)تو جانتا ھے میں نے ھمیشہ تیری خدمت کی ھے اور اس لڑکی کو روکنے۔ میں میری مدد کر اگر اسے ختم نہ کیا تو ہمارے لوگوں کا ھم پر اور تجھ پر ایمان ختم ھو جائےگا اور میں جانتا ھوں تو بھی ایسا نہیں چاھے گا اس لئے میری مدد کر اے ازابیل۔ اور یوسف یہ دیکھ کر پہلی بار گھبراگیا۔ کہتے ھیں کہ عشق کی آگ سب کجھ جلا دیتی ھے خاک بن جاتے ھیں انسان خاک سے بنے ھوئے انسان کے پیچھے غزالہ کی حالتِ بھی کجھ ایسی ھو گئی تھی وہ بھی اپنا وجود کھو بیٹھی تھی
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
گاؤں کی کجھ عورتیں اس کی ماں سے کہنے لگی کہ غزالا نے درگاھ پر اس لڑکے کو دیکھ لیا ھے اب اس کی جان کو خطرہ ھے لیکن اس کی ماں نے ایسی باتوں کو مان نے سے انکار کر دیا اور کہا کے وہ مسلمان ھیں اور ایسی باتوں پر ایمان نہیں رکھتی لیکن پھر بھی وہ غزالہ کی طرف سے پریشان رہتی ایک دفہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد وہ قرآن پڑھنے لگی تو غزالہ اس طرف ائی اماں کیا آپ مجھے بھی قرآن پڑھنا سکھائیں گی ایک شرط پر سکھاؤں گی اس کی ماں اس کی طرف مسکراتے ھوئے دیکھ کر بولی کیسی شرط ؟ غزالہ نے حیرانی سے پوچھا آج کے بعد تم مجھے کبھی سوتیلی ماں نہیں سمجھوگی اور اپنے دل کی ھر بات مجھے بتاؤ گی
تم میری بڑی بیٹی ھو یہ سن کر غزالہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور وہ اس کے گلے لگ گئی اور بولی میں نے کبھی آپ کو سوتیلی ماں نہیں سمجھا ھے آپ میرے لئے سگی ماں سے پڑھ کر ھو گاؤں کی کجھ لوگوں کا کہنا ھے کہ تم نے اس لڑکے کو دیکھا ھے اس لئے تم پر کوئی آفت آسکتی میں تو ان باتوں کو نہیں مانتی لیکن تمھارے بابا کجھ پریشان ھے وہ چاھتے ھیں کہ میں تمہیں شکار پور مرشد بی بی کے پاس دعا کے لئے لے جاؤں اللہ نے اس کی دعاؤں میں اتنی طاقت دی ھے کہ وہ جس کو بھی دعا دیتی ھیں اسے شفا ملتی ھے غزالہ اپنی ماں کے ساتھ شکار پور مرشد بی بی کے گھر آتی ھے
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
اور جب اس کی نظر مرشد بی بی پر پڑتی ھے تو وہ چونک جاتی ھے کیونکہ یہ وھی خاتون تھی جو اسے درگاھ پر ملی تھی کے سی ھو رضیہ ؟ میں تمھارہ ھی انتطار کر رھی تھی مرشد بی بی نے مسکراتے ھوئے ان دونوں کا استقبال کیا کیا آپ کو پتا تھا ھمارے آنے کا؟ رضیہ نے حیرانی سے مرشد بی بی کے ھاتھوں کو چومتے ھوئے پوچھا جس کے جواب میں مرشد بیبی صرف مسکرائی اور غزالہ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتےھوئے پوچھا کیسی تبیعت ھے اب اس کی؟ غزالہ نے گھبرا کر نظریں جھکالیں کیا بتاؤں بیبی چپ چپ تو یہ پہلے ھی رھتی تھی لیکن جب سے وہ حادثہ ھوا ھے اب تو یہ بلکل خاموش اور کھوئی کھوئی رھتی ھے
اب بس آپ ھی اس کے لئے کوئی دعا کرو رضیہ ایک ھی سانس میں اسے بتا کر چپ ھوگئی میں غزالہ سے اکیلے میں بات کرنا چاھتی ھوں کیونکہ کے کجھ باتیں ایسی ھیں جو یہ تمہارے سامنے مجھ سے نہیں کر پائے گی یہ کھ کر اس نے اپنی ملازمہ کو آواز دی نوری۔۔۔ رضیہ کے لئے کھانے کا انتظام کرو اور غزالہ کو لے کر اپنے مہمان خانے میں آئیں گھبراؤ نہیں میں تمھارے دل کی بات اچھی طرح جانتی ھوں تمھاری خاموشی کے اندر ایک طوفان برپا ھے اگر تم اسے نکالوگی نہیں تو یہ طوفان تجھے بہاکر لے جائے گا غزالہ اس کے نورانی چہرے کو دیکھتی رھی پھر اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنا چہرہ چپاکر رو پڑی
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
اور بولی بیبی میں تو وہاں منت مانگنے گئی تھی لیکن جب اسے دیکھا تو اپنی سب مرادیں بھول گئی ھوں اس کے علاوہ اب میرے پاس کوئی خواہش نہیں رھی نہ کوئی تمنا ھے محبت تو میں پہلے ھی اس سے کرنے لگی تھی جب اسے دیکھا ھی نہیں تھا پر اب اس سے عشق کرنے لگی ھوں غزالہ نے اس کی طرف دیکھتے ھوئے بولا تو پھر اس میں پریشانی والی کیا بات ھے؟ بیبی نے مسکراتے ھوئے اس سے پوچھ بیبی چاے لاوں؟ اچانک ملازمہ نے دروازے کی اوٹ سے پوچھا لے آؤں،،، اور وہ دوبارہ غزالہ کی طرف متوجہ ھوئی وہ مجھے کسی مصیبت میں لگ رھا تھا
اور وہ ۔۔۔وہ۔۔ میری طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رھا تھا عزالہ نے ھجکچاتے ھوئے بتایا کیا تم اس کے بارے میں جاننا چاھوگی؟ بیبی نے چائے کی پیالی اس کی طرف کھسکساتے ھوئے پوچھا اور غزالہ تجسس بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی یہ 30 سال پہلے کی بات ھے کہ گاؤں میں ایک بوڑھا جاگیردار رہتا تھا اس کا ایک ھی جوان بیٹا تھا جس کا نام فیاض تھا اس نے محبت کی شادی کی تھی، وہ اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرتا تھا شادی کو 5 سال ھوگئے لیکن اسے اولاد نہیں ھو رھے تھی وہ پریشان رھنے لگا کیونکہ اس کے باپ نے اسے دوسری شادی کرنے کا بولا تھا اسے اپنی جائداد کے وارث کی فکر تھی
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
لیکن فیاض دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا تھا ایک دن اسے کسی نے ایک پیر صاحب کے بارے میں بتایا جو شیطانی اور کالے علم کا ماہر ھے جنات اس کے قبضے میں ھوتی ھیں فیاض اس کے آستانے پر جاتا ھے اور اپنا مسئلہ بتاتا ھے پیر صاحب بہت بڑی رقم کے بدلے اس کا کام کرنے پر راضی ھوجاتا ھے اور اسے 3 راتیں اپنی بیوی کے ساتھ اس کے آستانے پر گزارنے کا کہتا ھے فیاض اپنے باپ سے چھوٹ بولتا ھے کہ وہ اپنی بیوی کو گھمانے کے لئے 3 دن شھر جارھا ھے اور وہ اپنی بیوی کو لیکر آستانے میں 3 راتے گزارتا ھے جہاں ھر رات پینے کے لئے انہیں خاص قسم کا مشروب بھی دیا جاتا ھے۔۔ کجھ مھینے کے بعد انہیں پتا چلتا ھے
کہ اس کی بیوی ماں بن نے والی ھے وہ بہت خوش ھوتا ھے حویلی میں جشن ھوتا ھے فیاض خوشی میں پیر صاحب کو دگنی رقم دیتا ھے پر افسوس فیاض کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی کیونکہ اس کی بیوی بیٹے کو جنم دیتے ھوئی مر گئی فیاض کا بیٹا بہت خوبصورت تھا نیلی آنکھیں تھی اس کی جو بھی اسے دیکھتا حیران رھجاتا اس کے دادا نے اس کا نام اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یوسف رکھا پر فیاض اپنی بیوی کی جدائی میں غمگین اور تنہا رھنے لگا اور شراب پینے لگا ایک رات اس کی بیوی کا افسوس کرنے پیر صاحب حویلی آتے ھیں اور اسے کہتے ھیں
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
کہ یہ بچہ تمھاری اولاد نہیں یہ سن کر فیاض کے پیروں سے زمین نکل جاتی ھے وہ میرے عزابیل (شیطان) کا بیٹا ھے، جو اس رات تمھاری بیوی پر عاشق ہوگیا تھا اس نے ھی تمھاری بیوی کو مارڈالا ھے اور مجھے لگتا ھے وہ اپنا بیٹا حاصل کرنا چاھتا ھے فیاض اپنا ذھنی توازن کھو بیٹھتا ھے اسے اپنے پیٹے سے نفرت ھوجاتی ھے اور اپنے بیٹے کو مارنے کے لئے اس پر بندوق تان لیتا ھے اس کا پاب اور محافظ اسے روک لیتے ھیں وہ چیخ چیخ کر اپنے باپ سے بولتا ھے بابا یہ میرہ بیٹا نہیں ھے یہ کسی عزازیل کا بیٹا ھے بابا دیکھ اس کی آنکھیں نیلی ھیں اور ھمارے خاندان میں کسی کی بھی آنکھیں نیلی نہیں ھیں
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
یہ میری بیوی کا قاتل ھے بابا میں اس کو نہیں چھوڑوں گا فیاض ھوش کر بیٹا یہ تیری ھی اولاد ھے اپنی بیوی کے عشق میں پاگل مت بن بیٹا اس کا باپ اسے گلے لگا کر سمجھتا رہا لیکن اب فیاض پاگل ھو چکا تھا اسے کمرے میں بند رکھا جانے لگا اور ایک دن اسی کمرے میں اس کی لاش ملی اس کا بوڑھا باپ صدمے میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا لیکن اپنے پوتے کی وجہ سے زندہ تھا حویلی میں عجیب و غریب واقعات ھونے لگے تھے کبھی دیواروں پر خون کے نشان تو کبھی ھڈیاں ملتی ھیں ایک دفعہ ایک بوڑھا ملازم جو یوسف کے نزدیک تھا اور اسے سنبھالتا تھا حویلی کی سیڑھیوں سے پھسل کر گر جاتا ھے
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
اور اسی وقت اس کی موت واقع ہوگئی حویلی میں جب خوف کے سائے منڈلانے لگے تو اسی پیر صاحب کو بلایا گیا جس نے کہا کہ یوسف پر جنات عاشق ھیں جو بھی یوسف کے نزدیک جائے گا جنات اسے ختم کردیگی میں ھی ان جنات کا خاتمہ کر سکتا ھوں اس بہانے وہ حویلی پر اپنے ڈیرے ڈال لیتا ھے اصل میں اس کی نظر ان کی جائداد اور زمینوں پر تھی اور وہ اسے یوسف کے زریعے آسانی سے حاصل کر سکتا تھا یوسف سے تو ویسے بھی اس کے رشتےدار خوف کھاتے تھے اور دور رھتے تھے جس کی وجہ سے اس کا دادا بہت پریشان رھتا تھا اسے یوسف کی فکر آندر ھی آندر کھائے جارھی
تجھے بھی عشق ہو جائے گا
تھی جس کی وجہ سے بیمار پڑ گیا اور ایک دن اس کی بھی کمرے سے لاش پائی گئی اب پیر صاحب نے یوسف کے پرورش کی زمیداری لی اور حویلی پر قبضہ کرلیا۔ جاری۔۔۔