تجھے بھی عشق ہو جائے گا. قسط نمبر 1
اسلام علیکم ۔پہلی بار لکھ رہا ہوں اس لئے بہت غلطیاں ہونگی۔ درگزر کیجئے گا غزالا کی ماں اور باپ شکار پور کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ ان دونوں میں اس وقت طلاق ہوگئی جب غزالا صرف 5 سال کی تھی۔ طلاق کی وجہ یہ تھی کہ وہ گاؤں کی زندگی سے خوش نہ تھی ۔اس لئے اپنے شوہر سے طلاق لی اور غزالا کو لیکر اپنے ماں باپ کے پاس حیدرآباد آگئی ۔اور ایک بزنس مین سے شادی کرلی وہ بہت خوش تھی۔ کیونکہ کہ زندگی کی ھر آسائش موجود تھی اس گھر میں اگر کوئی خوش نہ تھا۔ تو وہ غزالا تھی کیونکہ نہ اسے باپ کا پیار ملا اور نہ ہی اس کی ماں اس پر توجہ دیتی تھی ۔اس طرح وقت گزرتا رھا غزالا اب 18 سال کی ہوچکی تھی
وہ بہت خوبصورت تھیں پر اسے کسی کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ وہ چپ اور کھوئی کھوئی رھتی تھی کالج میں اکثر لڑکیاں اسے ذھنی مریضہ سمجھتی تھی۔ اس کی دو سوتیلی بہنیں بھی تھی جو اس کی خوبصورتی سے جلتی تھی ۔اور اس کے خلاف اپنے ماں باپ کے کان بھرتی رہتی۔ لیکن غزالا کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اکثر اپنے کمرے میں بند رھتی۔ اک صبح اس کی ماں نے اسے اٹھانے کے لئے کمرے کا دروازا بجایا تو اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ۔وہ پریشان ھوئی اور زور زور سے دروازا بجانے لگی ۔لیکن دروازہ نہیں کھلا آ خرکار دروازے کو توڑا گیا۔ دیکھا تو غزالا بیھوش پڑی تھی اسے اسپتال لےجایا گیا رات۔ کو جب اسے ھوش آیا
مزیدپڑھیں۔۔۔سیکھنے اور سکھانے کا عمل آجاؤ مل کر سکھاتے ہیں
تو اس کی ماں اس کے کمرے میں گئی اور دروازا بند کرکے ۔اس سے غصے سے پوچھا کہ مجھے ڈاکٹر نے بتایا ھے کہ تم نے خودکشی کی کوشش کی ھے مجھے سچ بتاؤ کیوں کرتی ھو۔ ایسی حرکتیں۔ میں آپ کے ساتھ نہیں رھنا چاھتی گاؤں جانا چاھتی۔ ھوں بابا کے پاس غزالا کے اس جواب پر اس کی ماں کو اور غصہ آگیا ۔اور کہا کہ کیا وھاں اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہ سکوگی۔کیوں نہیں رہسکتی ، جب سوتیلے باپ کو برداشت کرسکتی ھوں ۔تو سوتیلی ماں کو بھی کرلوں گی۔ ماں نے غصے میں اک زوردار تھپڑ رسید کیا اسے اور بولا کہ کمبخت اکبر ( اس کا سوتیلا باپ) ھم سب کا اتنا خیال رکھتے ھیں
اور تم ان کو سوتیلا کہتی ھو شرم نہیں آتی تمہیں لگتا ھے اپنے باپ کی طرح تم بھی اپنی ماں کو خوش دیکھنا نہیں چاہتی۔ ٹھیک ھے تو آپ خوش رھیں اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں میں جیوں یا مروں یہ میری زندگی ھے۔ غزالہ کے اس جواب پر اس کی ماں خاموش ہوگئی اور کمرے سے چلی گئی شام کو غزالہ کی سہیلی ان کی تبیعت پوچھنے اس کے گھر آئی یہ اک ھی اس کی سہلی تھی جس سے غزالا اپنے دل کی باتیں شیئر کرتی تھی غزالہ نے بتایا کہ اس کی ماں کا دوبارا گھر برباد ھوجائے گا اگر اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ اس کا سوتیلا باپ اس پر بری نظر رکھتا ھے۔ بس اسے نفرت ہوگئی ھے
تجھے بھی عشق ہو جائے گا. قسط نمبر 1
اپنی ماں سے اور اس گھر سے وہ جینا نہیں چاھتی اس کے پاس دو ھی راستے ھیں یا تو وہ خودکشی کرلے یہ گاؤں اپنے باپ کے پاس چلی جائے ۔ دوسرے دن غزالہ کی ماں اپنے شوہر سے کہنے لگی کہ غزالا کے لئے کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس کی شادی کرادو مجھے اس لڑکی کے تیور آج کل کجھ ٹھیک نہیں لگتے جب غزالہ کو اس بات کا پتا چلا تو وہ اپنے باپ کے کمرے میں آئی اور اسے دھمکی دی کہ مجھے آپنے گاؤں اپنے باپ کہ پاس جانے کی اجازت دی جائے نہیں تو میں اپنے ماں کو بتادوں گی کہ آپ مج سے کیا چاھتے ھیں آپ اپنی بیٹیوں کو مونھ دکھانے کے قابل نہیں رھیں گے اس دھمکی سے اس کا باپ بھی ڈر گیا
اور بولا ٹھیک ھے میں تمہاری ماں سے بات کرتا ھو جیسے تم چاھتی ھو ویسا ھی ھوگا ۔ غزالہ کی ماں نہیں چاھتی تھی کہ اس کی بیٹی اس کو چھوڑ کر گاؤں جائے لیکن اس کے شوھر نے اسے سمجھایا کہ غزالا کو اس کے باپ کے پاس بھیج دیتے ھیں نہیں تو وہ دربارہ خودکشی کی کوشش کرے گی اور دیکھنا وہ گاؤں میں ویسے بھی خوش نہیں رھ سکے گی آخر تمھاری بیٹی ھے واپس آجائے گی ۔ آخر کار غزالہ کو گاؤں لیجانے کی تیاری ھونے لگے اس کی سوتیلی بہنیں بھی خوش ھورھی تھی کہ اس بلا سے جان چھوٹنے والی ھے پہلی بار غزالا اپنی سہیلی سے ملنے اس کے گھر آئی تھی اور بتایا کہ وہ اپنے گاؤں جارھی ھے
تجھے بھی عشق ہو جائے گا. قسط نمبر 1
اب کبھی واپس نہیں آئے گی پہلی دفع وہ خوش بھی نظر آرھی تھی تو پریشانی بھی تھی کہ وھاں سوتیلی ماں نہ جانے کیسی ھو اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وھاں بھی ایسا کجھ ھوا تو وہ خودکشی کرلے گی کیوں کے محبت اور رشتوں سے اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا ۔ غزلا اپنے گاؤں شکارپور اچکی تھی پہلی بار اس کے حقیقی باپ نے جب اسے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے دونوں باپ بیٹی گلے ملکر دیر تک روتے رھے غزالا چاھتی تو وہ اسے بول سکتی تھی کہ تو کیسا باپ ھے تجے اک بار بھی اپنی بیٹی کی یاد نہیں آئی ایک بار بھی رابطہ نہیں کیا لیکن وہ چپ رھی
صرف یہ درخواست کی کہ بابا آپ تو مجھے خود سے الگ نہیں کرنا میں ھمیشہ کیلئے آپ کہ پاس رھنا چاھتی ھوں۔۔۔۔ پاس کھڑی اس کی سوتیلی ماں اسے معنی خیز نظروں سے دیکھ رھی تھی اور سوچ رھی تھی کہ یہ کیا سین ھے۔ غزالا کے باپ کی گاؤں میں اپنی زمیں اور بھینسوں کے باڑے تھے خوشحال فیملی تھی یہاں بھی غزالا کو 4 سوتیلی بہنیں اور دو بھائی چاچا چاچی کزنز مطلب بہت بڑی فیملی تھی جو سب قریب ھی رھتے تھے سب نے غزالا کو ویلکم کیا غزالا بھی اس نئے ماحول میں خوش اور تھوڑی سی کنفیوز بھی تھی۔۔ گاؤں میں لڑکیوں کو آلک کمرے نہیں ملتے
تجھے بھی عشق ہو جائے گا. قسط نمبر 1
سب بہنیں ایک ساتھ ایک کمرے میں رھتی غزالا اپنی بہنوں۔ کے ساتھ سوتی تھی ایک رات اسے نیند نہیں آرھی تھی ۔پانی پینے کے لئے وہ کمرے سے باھر آئی ۔تو اسے اپنے بابا کے کمرے سے کجھ آوازیں آرھی تھی غزالا نے کھڑکی۔ سے دیکھا تو اس کی سوتیلی ماں اس کے باپ سے کھ رھی تھی مجھے کجھ گڑبڑ لگ رھی تمھاری اس پہلی بیوی نے اپنی بیٹی کو کیوں نکال دیا اپنے گھر سے اور اس لڑکی کے دل میں اچانک اپنے باپ کے لئے اتنا پیار کہاں سے اگیا اب مجھے اپنی بیٹیوں کی اس لڑکی کی وجہ سے فکر ھورھی ھے ارے پگلی کجھ بھی نہیں ھے اصل میں اس کی ماں نے مجھے کہا ھے
کہ غزالا کا ذھنی توازن درست نہیں ھے دورے پڑتے ھیں اسے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی اس نے علاج چل رھا ھے اس کا ڈاکٹر نے بولا ھے کہ ماحول بدلنے کے لئے اسے گاؤں بھیجو اپنے باپ کہ پاس پھر وہ اسے لے جائیں گے تو پریشان نہ ھو اور سوجا۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر غزالا کی آنکھوں میں آنسوں آگئے وہ بستر پر آکر سوچنے لگی کہ آس کا باپ اسے پاگل سمجھ رھا ھے وہ اپنے خدا سے دعا کر رھی تھی کہ میرا قصور کیا ھے کس جرم کی مجے سزا مل رھی ھے کہیں میں سچ میں پاگل تو نہیں ھوں ۔ صبح اٹھی تو گھر میں چہل پہل اور شور تھا سب تیار ھورھے تھے
تجھے بھی عشق ہو جائے گا. قسط نمبر 1
اس کی چاچا کی بیٹی حاجرہ س کے پاس آئی غزالا تم تیار نہیں ھورھی چلوگی نہیں کیا۔ کھاں چلنا ھے ، غزالا نے پوچھا آج سائیں بابا حاجی شاھ کا میلا ھے۔ وھی سب جارھے ھیں تایا ابو نے نہیں بتایا کیا نہیں مجھے تو کسے نے نہیں کھا غزالا نے جواب دیا ۔اس کی ماں اس کے پاس آئی اور بولیں غزالا تم بھی تیار ۔ھو جاو سب ساتھ چلیں گے ساتھ والے گاؤں میں میلا ھے ۔اور تیرے بابا نے تو خاص تمہیں ساتھ لیجانے کو بولا ھے۔ٹھیک ھے ماں جی یہ کھ کر غزالا تیار ھونے لگی اور ساتھ میں یہ بھی۔ سوچنے لگی کہ شاید یہ لوگ مجھے جان بھوج کر دعا کے۔ لئیے کسی درگاھ پر لیجا رھے ھیں۔۔
درگاھ پر بہت رش تھا غزالا اپنی ماں چاچی اور بہنوں اور کزنز کے ساتھ درگاھ میں داخل ھوئی۔ تو کافی لوگوں کی نظریں اس کی طرف تھی کیوں کہ لال جوڑے۔ اور دوپٹے میں وہ سب سے خوبصورت نظر آرھی تھی ۔اور اسے بھی یہ ماحول بہت سرور دے رھا تھا ڈھولک کی تھا تالیوں کی گونج میں قوالی اسے بہت اچھی لگ رھی تھی ۔اس کی چاچی اور ماں وھاں قرآن پڑھنے بیٹھ گئیں تو غزالا نے اپنی ماں سے اجازت مانگی کہ وہ درگاھ ۔سے باہر قوالی سن لے کیوں کہ اسے تو قرآن پڑھنا ھی نہیں آتا تھا۔ اس کی ماں نے اسے اشارے سے اجازت دیدی۔۔۔۔ وہ باھر آئی اور درگاھ کی سیڑھیاں اترتے لگی درگاھ کہ پیچھے ایک بڑا سا میدان تھا
تجھے بھی عشق ہو جائے گا. قسط نمبر 1
جھاں پر کجھ لوگوں کا حجوم تھا وہ دیکھنا چاھتی تھی۔ کہ یہ بھیڑ کیوں ھے پر اسے کجھ نظر نہیں آرھا تھا ۔کیونکہ رش تھا بہت وہ قریب گئی حجوم کے برابر میں ایک مٹی کا تھلا بنا ھوا تھا۔ وھاں عورتیں کھڑی تھی وہ بھی تھلے پر چڑھنے لگی ۔اب اسے صاف نظر آرھا تھا ہجوم کے درمیاں گول ۔دائرے میں خاردار تاریں بجھی ھوئی تھی جس کے درمیان میں ۔ایک نوجوان بیٹھا ھوا تھا جو مٹی سے پورا لٹا ھوا تھا وہ مٹی اٹھا ۔کر اپنے سر اور مونھ پر پھینک رھا تھا
اور کجھ عورتین بھی تھوڑی سی مٹی اٹھا۔ کر اس کی طرف پھینک رھیں تھیں لیکن سر سب کے نیچے تھے۔ وہ اس لڑکے کی طرف دیکھنے لگی تو ایک بوڑھی عورت نے۔ اسے بازو سے کھینچا اور کہا نہیں بیٹا اس کی طرف مت دیکھوں نظریں نیچے رکھو تھوڑی سی مٹی اٹھاؤ اور اس کی طرف۔ پھینکو بس تمھاری مراد پوری ھوگی ۔لیکن دیکھنے سے کیا ھوگا ۔غزالہ نے پوچھا، نہیں ںیٹا وہ بہت خوبصورت ھے جوبھی اس سے نظریں ملاتا ھے اسے عشق ھوجاتا ھے۔۔ نہیں تو ” تجھے عشق ہو جائے گا ” اچانک کسی نے پیچھے سے اس کے کندھے پر ھاتھ رکھا اوئے کس سے بات کر رہی ھے
جاری ہے