لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

قسط نمبر3۔ آخری

از قلم ابن علیم رانا

اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔ اس گاؤں کے مسلمان ایک حویلی نما گھر میں نماز ادا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اسی حویلی کی جگہ ایک چھوٹی سی مسجد بنادی گئی۔ اور ایک بھلے مانس آدمی خدا بخش کو امام مقرر کردیا گیا۔ جو انڈیا سے ہجرت کرکے اسی گاؤں میں آبسے تھے۔ انڈیا میں بھی وہ ایک چھوٹی سی مسجد میں امامت کرواتے تھے۔ اور بچوں کو قران کی تعلیم دیتے تھے۔ اسی گاؤں میں ان کو ایک مکان بھی مل گیا تھا۔ جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ نماز کے علاوہ وہ گاؤں کے بچوں کو قران پاک پڑھاتے تھے۔

ایک رات وہ عشاء کی نماز پڑھاکر مسجد میں ہی بیٹھے قران کی تلاوت کررہے تھے۔ جب ان کو اچانک ہی دروازے پہ کسی کے وجود کا احساس ہوا۔ قران پاک بند کرکے وہ اٹھے۔ اور باہر جھانکا۔مگر مسجد کے صحن میں کوئی نہ تھا۔ وہ واپس آکر پھر تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ کچھ دیر بعد پھران کو ویسا ہی احساس ہوا۔ کون ہے؟؟؟ انہوں نے آواز دی۔مگر کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔ انہوں نے تلاوت مکمل کی اور اپنے گھر چلے گئے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر وہ کافی دیر مسجد میں بیٹھ کر تلاوت کرتے تھے۔ اور پھر اپنے گھر چلے جاتے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ان کو کسی وجود کا احساس ہوا تھا۔

مزید پڑھیں۔۔۔لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔

اس کے بعد کئی مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہفتے میں ایک دوبار ان کو محسوس ہوتا تھا ۔جیسے کوئی چھپ کر ان کی تلاوت سن رہا ہے۔ انہوں نے کئی بار پکارا تھا۔کہ کوئی ہے وہاں؟؟؟ مگر ایک بار بھی جواب نہیں آیا تھا۔ انہوں نے اٹھ کر ادھر ادھر بھی دیکھا تھا۔ مگر مسجد میں ان کے سوا کوئی دوسرا ذی روح نظر نہ آیا۔ ان کو یقین ہوگیا تھا کہ۔ کوئی اور ہی مخلوق ہے۔ جو شاید ان کی تلاوت سننے آتی ہے۔ اس لیے وہ بھی بےفکر ہوگئے تھے۔ اور پہلے سے کچھ اونچی آواز میں پڑھتے تھے۔ تاکہ اگر کوئی مخلوق تلاوت سننے آتی بھی ہے تو اسے اچھی طرح سنائی دے۔ کئی مہینوں بعد ایک دن ان کو وہ مخلوق نظر آہی گئی۔

آج جمعرات تھی۔ خدا بخش حسب معمول عشاء کی نماز پڑھ کر تلاوت میں مصروف تھے۔ بہت دیر بعد ان کو محسوس ہوا جیسے صحن میں کوئی ہے۔ وہ اٹھ کر باہر کی طرف گئے۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ۔ ایک سایہ سا صحن سے نکل کر باہر والے دروازے کی طرف جارہاہے۔ خدابخش نے اسے آواز دی۔ اس ساۓ نے مڑکر دیکھا مگر رکا نہیں۔ اور مسجد سے باہر نکل گیا۔ غلام بخش کو ایسی ہی کسی مخلوق کی توقع تھی۔مگر اسے بس حیرت اس بات کی ہوئی تھی۔کہ وہ مدھم سا سایہ کسی لڑکی کا تھا۔  راما کو کئی سال گزرگئے تھے۔ جانی کو آتا جاتا دیکھتے ہوۓ۔جانی ہر جمعرات کو ضرور آتا تھا۔

مزید پڑھیں۔۔۔لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

راما نے کئی بار اس کا نام لیکر اسے پکارا تھا۔ کئی بار اس کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی مگر۔ جانی کو اس ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ بےبسی سے روپڑتی تھی۔ کئی سال بعد ایک دن وہ یونہی گھومتے ہوۓ مسجد کی طرف جانکلی تھی۔ رات عشاء کے بعد کا وقت تھا۔ مسجد کے قریب سے گزرتے اسے اندر سے کسی کے قران پڑھنے کی آواز آئی ۔ بےاختیار اس کے قدم مسجد کے صحن کی طرف اٹھ گئے۔ آواز مسجد کے اندر کمرے سے آرہی تھی۔ وہ چلتی ہوئی دروازے تک پہنچ گئی۔ آواز اب واضع آرہی تھی۔ وہ وہیں دروازے کے پاس بیٹھ کر تلاوت سننے لگی۔ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اسے الفاظوں کی کچھ خاص سمجھ نہیں آرہی تھی۔

مگر اسے بےحد سکون مل رہا تھا۔ اسے یاد نہیں وہ کتنی دیر وہاں بیٹھی تلاوت سنتی رہی۔ جب آواز آنا بند ہوگئی تو وہ چونکی۔ کچھ دیر بعد ایک باریش آدمی اندر سے نکلا راما اس وقت وہیں بیٹھی تھی۔مگر اس آدمی نے اس پر توجہ نہ دی یا شاید وہ اسے نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ وہ اس کے قریب سے چلتا ہوا مسجد سے باہر نکل گیا۔ پھر تو یہ معمول ہوگیا۔ ہفتے میں ایک دودن راما وہاں جانے لگی۔ کئی مہینے مزید گزرگئے تھے۔ راما مسجد جاکر تلاوت سنتی تھی۔ ایک دن وہ گئی تو تلاوت شروع تھی۔ وہ چلتی ہوئی صحن میں پہنچی تو آواز آنا بند ہوگئی۔ اسے لگا اندر سے کوئی آرہا ہے۔ وہ ایک طرف اندھیرے میں ہوگئی۔

مزید پڑھیں۔۔۔لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔

آنے والے نے باہر جھانکا۔اور پوچھا تھا۔ کون ہے؟؟؟ پھر وہ اندر چلا گیا۔ اور دوبارہ تلاوت شروع کردی۔ راما حیران تھی کہ اس کو کیسے راما کی موجودگی کا احساس ہوا ہے؟؟؟ ورنہ تو وہ خود بھی کسی کو بلاتی یا ہاتھ لگاتی تب بھی اسے کوئی محسوس نہ کرتا تھا۔ پھر کئی بار ایسا ہوا تھا کہ تلاوت کرنے والے کو اس کی موجودگی محسوس ہوتی تھی۔مگر اس نے کبھی راما کو دیکھا نہیں تھا۔ البتہ وہ اب پہلے سے اونچی میں تلاوت کرتا تھا۔ اس دن جمعرات تھی۔ وہ مسجد میں بیٹھی تلاوت سن رہی تھی۔ بہت دیر تلاوت سننے کے بعد اسے خیال آیا کہ جانی آچکا ہوگا۔ وہ اٹھ کر جارہی تھی۔جب کسی نے اسے پکارا تھا۔

اس نے مڑکر دیکھا۔ ایک باریش آدمی مسجد کے دروازے پہ کھڑا اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ چپ چاپ مسجد سے نکل آئی۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ ۔وہ اب نظر آسکتی ہے۔ وہ گاؤں سے ہوتی کنوے پہ جانے والی پگڈنڈی پہ چل پڑی۔ دور سے ہی اسے کنوے پہ لالٹین کی ہلکی سی لو ٹمٹماتی نظر آرہی تھی۔ یقیناً جانی ابھی کنوے پہ موجود ہے۔ اس نے سوچا اور وہ بےتابی سے آگے بڑھنے لگی۔ اس نے کچھ دور سے ہی دیکھ لیا تھا کہ جانی کنوے پہ بیٹھا ہے۔ وہ آگے بڑھتی رہی۔ جانی اب کچھ فاصلے پر ہی تھا۔اور اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ اچانک اچھل کر کھڑا ہوا تھا۔ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ راما کو سرشار کرگئے تھے۔

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

جانی بےتابی سے آگے آیا تھا۔ اور اس کے منہ سے راما کا نام نکلا تھا۔ وہ بےیقینی کی کیفیت میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھےجارہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ڈر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ بلکہ اس وقت اس کی آنکھوں میں دنیا جہان کی حیرت سمٹ آئی تھی۔ جانی۔۔۔۔!!! راما کی آواز پر وہ عالم حیرت سے واپس آیا تھا۔ راما بےتابی سے آگے بڑھی اور جانی کے سینے سے جالگی۔ جانی نے اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لینا چاہا۔مگر جانی کا ہاتھ راما کے وجود کا لمس محسوس نہ کرسکا۔ اس نے راما کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لینا چاہا تو اس کے دونوں ہاتھ ایک دوسرے سے جاملے۔ جیسے ان کے درمیان کوئی وجود نہ ہو۔

وہ بس راما کو ساۓ کی صورت میں دیکھ سکتا تھا۔اور اس کی آواز سن سکتا تھا۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ دونوں بےتحاشہ روۓ تھے۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ۔ کسی کے صبر اور ریاضت کا صلہ یوں بھی مل جاتا ہے۔ جانی اس موقع پر بھی اپنے اللہﷻ کا شکر ادا کرنا نہیں بھولا تھا۔ جس کے ہاتھ میں تمام جہان کی بادشاہی ہے۔ اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ بےشک اس کا کن فرما دینا ہی کافی ہوتا ہے۔ اور وہ بھی ہوجاتا ہے۔جسے عقل انسانی تسلیم نہیں کرتی۔ وہ دونوں کنوے کی منڈیر پہ آبیٹھے۔ لالٹین کی لو ہلکے ہلکے ایسے جھوم رہی تھی۔ جیسے ان دونوں کے ملنے کی خوشی میں ناچ رہی ہو۔

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

صبح فجر کی آذان ہوئی تو وہ چونکے۔ باتوں میں ان کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا تھا۔ انہوں نے دنیا جہان کی باتیں کی تھیں۔ راما نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ۔ وہ اسے پہلی جمعرات سے دیکھتی آرہی ہے۔ اور اس نے کئی بار جانی کو پکارا بھی روکا بھی۔مگر جانی کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح کئی سال گزرگئے تھے۔ کچھ مہینے پہلے وہ ایک دن مسجد کے قریب سے گزر رہی تھی۔ جب اس نے کسی کے تلاوت کرنے کی آواز سنی۔ اس کے بعد وہ کئی باروہ تلاوت سننے وہاں گئی تھی۔ اور شاید یہ اس تلاوت سننے کی برکت ہی تھی۔کہ اس کا نظر نہ آنے والاوجود نظر آنے لگا تھا۔ اب مجھے جانے ہوگا۔

راما نے جانی سے کہا۔اور اگلی جمعرات کو آنے کا وعدہ کرکے چلی گئی۔ جانی کا دل نہیں کررہا تھا کہ۔وہ یہاں سے جاۓ۔مگر سب کچھ انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ راما چلی گئی۔ جانی نے کنوے کے پانی سے وضو کیا۔ مسجد میں جاکر فجر کی نماز ادا کی۔ اس نے شکرانے کے نفل بھی پڑھے تھے۔ سجدے میں سر رکھ کے وہ بہت رویا تھا۔ اور یہ شکر کے آنسو تھے۔ اس کی عطا پہ اس کے کرم پہ شکر کے آنسو۔ یہ پہلی بار تھا۔کہ وہ جب ڈیرے پہ پہنچا تو سورج افق سے نکلنا شروع ہوگیا تھا۔ جانی کو لگ رہا تھا جیسے آج عید کا دن ہے۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ۔ محبوب سے ملنا عید ہی ہوتی ہے۔

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

اور ایسے محبوب سے ملنا جس کو قیامت سے پہلے ملنے کی توقع بھی نہ ہو۔ یہ کئی عیدوں کا دن تھا۔ ابن علیم رانا جانی کو ایک بار پھر سے جمعرات کا انتظار رہنے لگا تھا۔ اگرچہ وہ راما کو چھوکر محسوس نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔کہ وہ اسے دیکھ اور سن سکتا تھا۔ جانی نے یہ بات سواۓ اپنے دوست اختر کےاور کسی کو نہیں بتائی تھی۔مگر اندان گاؤں میں کچھ دنوں سے لوگوں میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ ۔ آس پاس کسی لڑکی کا سایہ سا پھرتے دیکھا گیا ہے۔مگر وہ کسی کو کچھ نہیں کہتی تھی ۔ نہ کسی کو تنگ کرتی تھی۔ ان کو کیا پتہ کہ اہل دل اور اہل محبت کسی کو کچھ نہیں کہتے۔

وہ اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔اور ان کی کل دنیا ان کا محبوب ہوتا ہے۔ اکثر اس کو رات کے وقت مسجد کے پاس بھی دیکھا گیا ہے۔ اور مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ۔ وہ جو بھی ہے قران کی تلاوت سننے آتی ہے۔ اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لوگوں کو ڈر نہیں تھا۔ تجسس تھا ۔ آخر وہ کس کا سایہ ہے؟؟؟ اور کیوں پھرتا ہے؟؟؟ اسے کس کی تلاش ہے؟؟؟ یہ بات صرف جانی اور اس کا دوست اختر ہی جانتے تھے۔کہ وہ سایہ راما ہے۔ دن ہفتوں مہینوں سالوں میں بدلتے رہے۔ وہ دونوں جمعرات کو ملتے اور ایک دوسرے کو دیکھ لیتے تھے۔ راما نے بھی گاؤں والوں کی باتیں سنی تھیں۔

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

اور وہ اب خود کو چھپاکر رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا وہ کئی کئی جمعرات نہیں آئی۔ کئی سال مزید گزرگئے۔ وقت نے جانی پہ اپنا اثر چھوڑا تھا۔ وہ اب بوڑھا ہوگیا تھا۔ ایک ایک کرکے اس کے ماں باپ بھی اسے چھوڑ کر اس دنیا سےجاچکے تھے۔ جانی نے ایک دن راما کی استھیاں نکالی۔ اور وہ پوٹلی اپنے بھائی گامو کو دیکر اسے کہا تھا ۔کہ اس کے مرنے کے بعد یہ پوٹلی اس کے ساتھ دفنادی جاۓ۔ اور ہر جمعرات کو لالٹین جلا کر ڈیرے پہ رکھ دیا کرے۔ کچھ وقت اور گزرا۔اور پھر ایک دن وہ خاموشی سے دنیا چھوڑ کر راما کے پاس چلا گیا۔ جانی کو دفنانے لگے

تو اس کے بھائی نے جانی کی وصیت کے مطابق وہ پوٹلی بھی اس کے ساتھ رکھ دی۔ وہ اپنی محبوب کی نشانی بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جانی اپنی محبوبہ کی راکھ بھی اس دنیا سے بہت دور لے گیا تھا۔ دور کھڑی نم آنکھوں سے راما یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ لوگ چلے گئے تو وہ جانی کی قبر پہ آئی۔ اور دیرتک روتی رہی۔ پہلی جمعرات آئی تو وہ بےچینی سے کنوے پہ پھررہی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ آج جانی نہیں آۓ گا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ۔ وہ بھی اب کبھی نہیں آۓ گی۔ ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلی جاۓ گی۔ وہ کنوے سے سیدھا جانی کی قبر پہ گئی۔ اور وہاں سے اس کے ڈیرے پہ۔ اسے حیرت ہوئی تھی۔

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

ڈیرے پہ لالٹین لٹکی جل رہی تھی۔ اسے شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ۔ جانی نے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ۔ ہر جمعرات کو لالٹین جلاکر ڈیرے پہ رکھ دیا کرے۔ راما نے لالٹین اٹھائی۔اور پہاڑ کے دوسری طرف اتر گئی۔ وہاں سے وہ سیدھی قبرستان گئی۔ کچھ دیر جانی کی قبر پہ کھڑی روتی رہی۔ پھر وہاں سے کنوے اور شمشان گھاٹ گئی۔ اسی طرح وہ واپسی پہ کنوے پہ آئی۔ وہاں سے قبرستان اور پھر پہاڑ کی طرف چلی گئی۔ دیکھنے والوں کو یہی محسوس ہوتا کہ۔ لالٹین ہوا میں تیر رہی ہے۔ پہاڑ کے دوسری طرف اتر کر اس نے لالٹین وہیں لٹکائی اور واپس چلی گئی۔ اس نے سوچا تھا

وہ ہر جمعرات کو اپنے محبوب کی یاد میں ایسے ہی کیا کریگی۔ تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعد بھی جانی یاد رہے۔ اگلی جمعرات وہ کنوے پہ کھڑی تھی۔ اسے رات کچھ گہری ہونے کا انتظار تھا۔ تاکہ وہ جانی کے ڈیرے پہ جاکے لالٹین لیکر آۓ۔ کافی دیر وہ وہاں کھڑی رہی۔ پھر وہ اس طرف جانے کے لیے مڑی۔ اور ٹھٹک کر رک گئی۔ دور کہیں سے لالٹین کی ہلکی سی لو اسے اپنی طرف آتی دکھائی دی۔ وہ حیرت اور خوشی سے اس طرف دیکھے جارہی تھی۔

لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی

جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ۔ یہ جانی ہے۔ محبت پاک ہو اورنیت صاف ہو ۔ جسموں کے ملاپ کی ہوس نہ ہو تو۔پھر دنیا میں اگر نہیں بھی مل سکے تو روحوں کا ملاپ ضرور ہوتا ہے۔ اور دو پاک صاف محبت کرنے والے مر کے بھی مل گئے تھے۔ اور وہی ابدی محبت ہے ۔ہمیشہ رہنے والی جس کو کبھی زوال نہیں۔ اور نہ کوئی ڈر ہوتا ہے۔ سواۓ اللہﷻ کے۔ ہمیشہ رہے گا نام اللہﷻ کا  ختم شد پسند آئی ہو تو بتائے گا ضرور۔ آپ کی راۓ کا منتظر رہونگا۔۔۔۔شکریہ خوش رہیں سلامت رہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *