لالٹین۔راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

قسط نمبر۔2

از قلم ابن علیم رانا

راما کو لگا تھا۔ کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ جیسے بہت دنوں بعد نیند سے جاگی ہو۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا دور دور تک سواۓ خلا کےکچھ نہ تھا۔ آواز اب مسلسل آرہی تھی۔ کوئی بہت ہی دردبھرے انداز میں اس کا نام لیکر اسے پکاررہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کہاں ہے؟؟؟ اور اس انداز سے کون اس کا نام پکاررہا ہے؟؟؟ وہ ہوا کے دوش پہ تیرتی اس طرف چل پڑی۔جس طرف اس کا نام پکارا جارہا تھا۔ وہ جیسے ہی وہاں پہنچی اس کی نظر ایک خوبرو جوان پہ پڑی جو سر جھکاۓ ایک جگہ بیٹھا راکھ پہ ہاتھ پھیررہا تھا۔اور روۓجارہا تھا۔ کبھی کبھی راما کا نام بھی اس کے منہ سے نکل جاتا تھا۔

رات کا وقت تھا۔ اس شخص کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے قریب ایک لالٹین بھی جل رہی تھی۔ وہ اور قریب ہوئی۔ اس آدمی کی شکل اب واضع ہوگئی تھی۔ اور شکل واضع ہوتے ہی راما چونک پڑی۔ جانی  بےساختہ اس کے منہ سے نکلا۔مگر جانی کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ویسے ہی بیٹھا رہا۔ جانی راما نے ایک بار پھر پکارا۔ مگر اب کی بار بھی کچھ نہ ہوا۔ ایسے لگتا تھا جیسے جانی بہرہ ہو۔۔۔اور اسے راما کی آواز سنائی ہی نہیں دے رہی ۔ جانی کو یوں بلکتے دیکھ کر راما کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے ۔ اسے سب یاد آگیا تھا کہ۔وہ کون ہے؟؟؟ اور اس کے ساتھ کیا ہوا تھا

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

جانی  راما نے آگے بڑھ کر جانی کو پکارا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور اس کے قریب بیٹھ گئی۔ مگر جانی اب بھی ویسے ہی بیٹھا رہا۔ اسے نہ راما کی آواز سنائی دی تھی۔اور نہ ہی اس کے وجود کا احساس ہورہا تھا۔ راما کا دل بیٹھ گیا۔ وہ ایک بار پھر سمندر کنارے پیاسی بیٹھی تھی۔ اس کے نصیب میں محبوب سے وصال کے لمحے میں بھی ہجر ہی مقدر تھا۔ کافی دیر جانی یونہی بیٹھا رہا۔اور پھراٹھ کر کنوے کی طرف چل پڑا۔ راما بھی اس کے پیچھے پیچھے کنوے تک آئی ۔ جانی کچھ دیر کنوے پہ رہا اور واپس جانے لگا تو راما نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکنا چاہا مگر۔ جانی راما کے وجود میں سے یوں گزرگیا جیسے وہ دھوویں سے بنی ہو۔

وہ کنوے پہ بیٹھ کر رونے لگ گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ کہ وہ جانی کو اپنے وجود کا کیسے احساس دلاۓ؟؟؟ وہ ایسا کیا کرے جس سے اس کا وجود ظاہر ہوجاۓ؟؟؟ اس نے بھیگتی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ یہ اس کا شکوہ نہیں تھا۔فریاد تھی۔ ایک بےبس کی فریاد۔ اور ایسی فریاد رائگاں نہیں جاتی۔ ایسی بےبسی کی کیفیت سے وہ ایک بار پہلے بھی گزرچکی تھی۔ جب اس کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کی نظر کنوے کے اس طرف اٹھ گئی۔ جہاں آج سے کچھ دن پہلے وہ بے بسی سے پڑی کنوے پہ نظرآتی لالٹین کو تک رہی تھی۔ اور اسے لگ رہا تھا کہ یہ نظر آنے والی لالٹین کی روشنی جانی کی لالٹین کی ہی ہوگی۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

اسے یاد آیا اس نے کسی کو مدد کے لیے پکارا تھا۔مگر آواز اس کے حلق میں ہی رہ گئی تھی۔ اور پھر یونہی کنوے کی طرف دیکھتے دیکھتے اس کو نیند آگئی تھی۔ بہت گہری نیند  صبح جب اس نے دیکھا تو لوگ اس کے جسم کو اٹھاکر اس کے گھر لےجارہے تھے۔ وہ بھی پیچھے پیچھے چل دی۔ گھر پہنچ اس نے دیکھا تھا کہ۔اس کی ماں اس کے وجود سے لپٹ کر بےتحاشہ رورہی تھی۔ اس کی چھوٹی بہن اور باپ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ پریشان ہوکر اپنی ماں کے پاس گئی تھی۔ اور اسے چپ کرانے کی کوشش کی۔مگر وہ اپنے ہونے کا احساس نہ دلاسکی تھی۔ پھر اس کو سجاکر شمشان گھاٹ لےجایا گیا۔ اسے یاد تھا

کہ اس وقت اس کی ماں کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ یہ لوگ کتنا پیار کرتے ہیں اس سے۔ راما نے سوچا تھا۔اوردور کھڑی بےبسی سے ان کو دیکھتی رہی۔ شمشان گھاٹ لےجاکر اس کو ایک جگہ رکھ دیا گیا۔ اور پھر اس کے چاروں طرف لکڑیاں جوڑدی گئیں۔ اس کے دیکھتے دیکھتے اس کے سامنے ہی اس کے وجود کو آگ دکھادی گئی۔ اسے زرا بھی کسی دکھ تکلیف کا احساس نہ ہوا تھا۔ وہ اپنے سامنے ہی اپنے آپ کو جلتا دیکھ رہی تھی۔ شمشان گھاٹ آنے والے لوگوں میں اس نے اپنے محبوب جانی کو بھی دیکھا تھا۔ جانی کی حالت دیکھ کر راما کا دل کٹ گیا تھا۔ لوگ واپس چلے گئے تھے۔ اس کا باپ بھی روتا ہوا واپس چلا گیا تھا۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

وہ وہاں اکیلی رہ گئی تھی۔ اچانک ہی کسی نے اس کو پکڑکر پاتال کی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ وہ بوکھلا گئی تھی۔ ڈر کر اس نے رونا شروع کردیا۔ اسے جس طرف لےجایا جارہا تھا۔ اس طرف سے آگ کی تپش محسوس ہورہی تھی۔ جو آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اسے لیے زمین کی تہوں کے اندر سے گزرتے جارہے تھے۔ حرارت اب اور بڑھ گئی تھی۔اور لوگوں کی چیخ وپکار بھی آنا شروع ہوگئی تھی۔ راما ڈر کر رونے لگ گئی۔ اور پوچھنے لگی کہ اسے کہاں لےجایا جارہا ہے؟؟؟ تپش اب ناقابل برداشت ہوچکی تھی۔ اور اس قدر شدید تھی کہ اسے لگا وہ پگھل جاۓ گی۔ اس سے پہلے کہ لےجانے والے اسے پاتال کی تہہ میں بھڑکتی

آگ میں پھینکتے۔ کسی نے اس کا بازو پکڑا۔اور واپس اوپر کی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ اس کو پاتال میں لےجانے والے بھی اس کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف آنے لگے۔ وہ اب خلا میں تھے۔ یہ ہندو تھی۔اور اسے اس کی جگہ پر لےجایا جاۓ گا۔ اس کو پاتال میں لےجانے والوں میں سے ایک نے کہا۔ یہ ہندو ضرور پیدا ہوئی تھی مگر یہ ہندو مری نہیں۔ کیا تم نے اس کے آخری الفاظ نہیں سنے تھے۔؟؟؟ اسے واپس اوپرلانےوالوں میں سے ایک نے اس کے حق میں دلائل دیے۔ اس کا ظاہر ہندو تھا۔ یہ خدا کو جان چکی تھی۔اور اس کو مانتی تھی۔ بس اس کو ظاہری طور پہ اظہار کا موقعہ نہ ملا۔ ہاں میں خدا کو مانتی تھی۔ راما بول پڑی میں جانتی تھی۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

وہی سچا ہے۔ اور وہی سنتا ہے۔میں اس سے دعا کرتی تھی۔ اور میں ایک مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ میں اس کا مذہب اپنانا چاہتی تھی۔مگر مجھے اظہار کا موقع نہ ملا۔ اسے پاتال میں لےجانے والے خاموش کھڑے تھے۔ اس کے آخری الفاظ وہ جانتے تھے۔ جس میں راما نے کہا تھا کہ۔ اے مسلمانوں کے خدا میں تجھے جان چکی تھی۔اور اگر مجھے موقع ملتا تو میں اور جانی ایک ہی ہوتے۔ اسے آزاد کردیا گیا۔ پاتال میں لےجانے والے اسے چھوڑکر چلے گئے۔ ایک مشہور حکايت بھی ہے کہ ایک آدمی نے سوقتل کیے تھے۔اور وہ توبہ کے اردے سے جارہا تھا کہ اسے موت نے آلیا۔ جنت کے فرشتے کہہ رہے تھے کہ یہ جنتی ہے۔

توبہ کے ارادے سے جارہا تھا۔مگرجہنم کے فرشتوں کو کہنا تھا کہ۔یہ جہنمی ہے۔ ان کو حکم ہوا کہ زمین ناپ لی جاۓ۔ اگر توبہ کی طرف جانے والی زمین کم ہو تو جنتی ہے۔اور اگر جہنم کی طرف کی زمین کم ہوتو جہنم میں لےجایا جاۓ۔ اللہﷻ نے زمین کو حکم دیا تو وہ سکڑگئی۔اور توبہ کا راستہ کم ہوگیا۔ اس شخص کی بخشش ہوگئی تھی۔ راما اچانک ہی چونکی تھی۔ اس نے اس طرف دیکھا جہاں جانی گیا تھا۔ لالٹین کی مدھم سی روشنی نظر آرہی تھی۔ وہ اٹھی اور اس طرف چل پڑی۔ جانی اپنے ڈیرے پہ پہنچ کر چارپائی پہ لیٹا رورہا تھا۔ راما کو یقین تھا کہ جانی اسے ہی یاد کرکے رورہا ہے۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

وہ اس کے پاس کھڑی دکھ سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ کئی مہینے ایسے ہی گزر گئے تھے۔ جب ایک دن اس نے اپنے باپ بھگوان داس کو شمشان گھاٹ میں روتے دیکھا۔ وہ بےتابی سے آگے بڑھی۔اور پتا جی کہ کر اپنے باپ سے لپٹ گئی مگر اس کے باپ کو نہ اس کی آواز سنائی دی تھی نہ اس کا لمس محسوس ہوا تھا۔ اس کے باپ نے ایک بوتل سے کچھ پانی وہاں چھڑکا۔جو شاید گنگا جل تھا۔ اور کچھ سوکھی پتیاں نکال کر وہاں پھینکی۔ راما بیٹیا ہم تجھے بہت یاد کرتے ہیں۔ اس نے کرب سے کہا تھا۔اور رونے لگ گیا۔ وہ کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا روتا رہا اور پھر گاؤں کی طرف چل دیا۔

راما بھی اس کے پیچھے گاؤں تک گئی تھی۔ اس کا باپ جس گھر میں گیا تھا۔ راما اس گھر کو اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ اس کی بچپن کی سہیلی رضیہ کا گھر تھا۔ وہ کچھ دیر وہاں کھڑی رہی اور پھر واپس پلٹ آئی۔ بھگوان داس کے آنے کے اگلے دن ہی اختر جانی کے پاس بیٹھا اسے بھگوان داس کے آنے کے ساتھ اسے ۔اس کے آنے کی وجہ بھی بتارہا تھا۔ جانی اور اختر آج تک ہندؤں میں ہی رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندو مذہب میں کسی انسان کی استھیاں گنگا میں بہانا کتنی ضروری ہیں ورنہ ان کے عقیدے کے مطابق استھیاں گنگا میں نہ بہانے کی صورت میں مرنے والے کی روح ہمیشہ بھٹکتی رہتی ہے۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

اور اسے مُکتی نہیں ملتی۔ راما کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ۔ اس کی استھیاں گنگا میں بہائی جائیں یا نہیں۔ جانی اختر سے کہ رہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں اندر سے وہ کون تھی؟؟؟ وہ ان کے جیسی نہیں رہی تھی اب۔ کاش کچھ دن وہ اور زندہ رہتی تو سب کو پتہ چل جاتا کہ راما ہندو نہیں رہی اب۔مگر اس کی زندگی ہی اتنی تھی بس۔ وہ مجھے اپنا ارادہ بتاچکی تھی۔ جانی دور کہیں دیکھتا اختر کو بتارہا تھا۔ مجھ سے بہتر اسے کون جان سکتا ہے؟؟؟ جانی بھائی ایسی بات تھی تو تم نے پہلے کیوں نہ کہا۔ اس بےچاری کو جلانے کیوں دیا ۔ ہم اس کا جنازہ پڑھتے اور اسے دفناتے۔ میرے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا

جس سے میں یہ سب ثابت کرسکتا۔ جانی تاسف سے کہ رہا تھا۔ ورنہ میں کبھی ایسا نہ ہونے دیتا۔ اور اس بات کا مجھے بھی افسوس ہے۔ اختر کو جانی کی بات سمجھ آگئی تھی۔اس نے جانی کے جواب پہ سر کو ہلادیا۔ اور بولا۔تو ٹھیک کہ رہا یار۔ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ کچھ دیر وہ جانی کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہا اور پھر اجازت لیکر چل پڑا۔ جانی نے اس سے کہا تھا کہ۔وہ کل بھگوان داس سے ملنے آۓ گا۔ راما پریشان ہوگئی تھی۔ اس نے اختر اور جانی کی ساری بات سن لی تھی۔ اور بچپن سے سنی باتوں سے اسے یہ فکر ہوگئی تھی ۔کہ اس کا باپ اگر اس کی استھیاں لےجاکر گنگا میں بہادے گا

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

تو کیا وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی جاۓ گی؟؟؟ اور وہ یہاں سے کبھی نہیں جانا چاہتی تھی۔ اگرچہ جانی کو اس کے ہونے کا احساس بھی نہیں تھا مگر۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ۔ وہ جانی کو دیکھ سکتی تھی۔ اسے جانی کی بات سن کر حوصلہ بھی ہوا تھا۔ جب اس نے کہا تھا کہ۔راما کو ان باتوں سےفرق نہیں پڑتا۔ کیا واقعی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس نے سوچا۔ اور مطمئن سی ہوگئی تھی۔مگر اس کے اندر کہیں یہ خواہش ضرور تھی۔کہ اس کا باپ اس کی استھیاں نہ لےجاۓ اگلے دن جانی بھگوان داس سے ملنے اختر کے گھر آیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑے تپاک سے ملے تھے۔

دونوں بہت دیر بیٹھ کر گفتگو کرتے رہے۔ پھر جانی اجازت لیکر گھر واپس آگیا۔ بھگوان داس کا ارادہ ابھی چار پانچ دن یہیں رہنے کا تھا۔ جانی ان پانچ دنوں میں دوتین بار بھگوان داس سے ملنے آیا تھا۔ پانچ دن رہنے کے بعد بھگوان داس اجازت لیکر واپس اپنے گھر چلا گیا تھا۔ اور جانے سے پہلے جانی اختر اور اختر کے والد کو اپنے گھر آنے کا کہ گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر زندگی رہی تو وہ ضرور اس کے گھر آئیں گے۔ بھگوان داس گھر پہنچ گیا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی شدت سے اس کا انتظار کررہی تھیں۔ راما کی ماں نے سامان لیکر سنبھال کردیا ان کا ارادہ کچھ دن بعد گنگا جانے کا تھا۔ جہاں وہ راما کی استھیاں بہاکر اپنا فرض ادا کرتے۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

تقریباً ایک ماہ بعد ان کو جانے کا موقع ملا تھا۔ تمام تیاری کیے وہ صبح ہونے کے انتظار میں تھے۔ اچانک ہی راما کی ماں کو خیال آیا تھا۔ بھگوان داس گڑوی کے ساتھ وہاں رہ جانے والی مورتی بھی لے آیا تھا۔ مورتی کو انہوں نے پوجا والے کمرے میں رکھ دیا تھا۔اور گڑوی کو بھی اسی کمرے میں ایک صندوق میں رکھا گیا تھا۔ راما کی ماں نے اس کمرے میں جاکر صندوق کھولا اور اندر سے گڑوی نکال کر سامنے رکھ لی۔ ان لوگوں نے ابھی تک اس کو کھول بھی نہیں دیکھا تھا۔ جیسے آئی تھی ویسے ہی رکھ دی تھی۔ اس کی ماں نے گڑوی کے منہ پہ بندھا کپڑا کھولا۔اور حیرت زدہ رہ گئی۔ گڑوہ خالی تھی۔

اس نے اپنے شوہر اور بیٹی کو آوازیں دینا شروع کردی۔ بھگوان داس اندر آیا اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی۔ راما کی ماں نے ان کو ساری بات بتائی کہ گڑوی خالی ہے۔اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ خالی گڑوی کا سن کر بھگوان داس حیران رہ گیا تھا۔ اس نے بھی گڑوی کو کھول کر نہیں دیکھا تھا۔ اور ایسے ہی لے آیا تھا۔ اب ان کا گنگا جانے کا کوئی مقصد ہی نہیں بچا تھا۔ بھگوان داس نے اپنی بیوی کو تسلی دی۔ اور کہا کہ۔ وہ ایک بار پھر جاۓ گا۔ ہوسکتا ہے وہیں غلطی سے وہیں رہ گئی ہو۔ مگر کئی سال گزر گئے اسے دوبارہ جانے کا موقع ہی نہ ملا کئی جمعراتیں گزرگئی تھیں۔ جانی کا معمول نہ بدلا تھا

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

۔آندھی ہو یا طوفان وہ ہر جمعرات کو لالٹین اٹھاتا۔اور کنوے پہ پہنچ جاتا۔ کنوے سے شمشان گھاٹ جاتا کچھ دیر وہاں بیٹھ کر راما کو یاد کرکے آنسو بہاتا اور پھر واپس کنوے پہ آجاتا۔ کچھ دیر یونہی کنوے پہ بیٹھا ۔گاؤں سے آنے والی پگڈنڈی کو تکتا رہتا۔ جیسے ابھی اس پر راما چلتی ہوئی اس کے سامنے آجاۓ گی۔ ہرجمعرات وہ دل میں یہ آس لیے جاتا کہ۔ شاید راما اس کی منتظر ہو۔مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ راما مر چکی ہے۔اور مرنے والے لوٹ کر نہیں آتے۔ مگر پھربھی اس کے دل سے یہ وہم نہیں جاتا تھا۔ اسے لگتا تھا راما اس کی منتظر ہوگی۔ اور جانی اس بات سے بےخبر تھا کہ۔ راما آج بھی اس کی منتظر ہوتی ہے۔

اور وہ اسے دیکھتی ہے ۔بلاتی ہے مگر ۔۔۔ جانی کو اس کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے۔ اس کے ماں باپ نے اس کو شادی کے لیے راضی کرنے کی کئی کوششیں کی تھیں۔ مگر بےسدھ۔ جانی کو گوارہ ہی نہیں تھا کہ۔راما کے سوا کوئی اور اس کی زندگی میں آۓ۔ اس نے راما کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو خواب دیکھا تھا۔ کچھ ہوس پرستوں نے اسے چکنا چور کردیا تھا۔ اور جانی اس امید کے سہارے زندگی گزاررہا تھا کہ۔ مرنے کے بعد اسے ضرور راما سے ملوادیا جاۓ گا۔ اسے راما کے بچھڑنے کا دکھ ضرور تھا۔ اور یہ دکھ ایسا تھا کہ۔ کسی بھی انسان کی جان لینے کے لیے کافی تھا۔ یا کم از کم اسے پاگل ضرور کردیتا۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

مگر جانی کا حوصلہ تھا۔جو یہ دکھ چپ چاپ سہے جارہا تھا۔ وہ اپنی تقدیر پہ راضی تھا۔ اللہﷻ کے فیصلے کو اس نے دل وجان سے تسلیم کرلیاتھا۔ اس نے کبھی تقدیر سے شکوہ نہیں کیا تھا۔ وہ انپڑھ ہونے کے باوجود اتنا ضرور جانتا تھا کہ۔ تقدیر سے شکوہ دراصل تقدیر بنانے والے سے شکوہ کرنا ہے۔ اور اس کا صبر اسے اپنے مالک سے شکوہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس نے کبھی اللہﷻ سے شکوہ نہیں کیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ۔اللہﷻ کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ وہ اپنے صبر کا بس اتنا سا صلہ چاہتا تھا کہ۔ مرنے کے بعد اسے راما سے ملوادیا جاۓ۔ اسی طرح کئی سال گزرگئے۔

اس کی بہن کی شادی ہوگئی تھی۔اور اس کے بھائی گامو کے لیے رشتہ دیکھا جارہا تھا۔ ارد گرد گاؤں میں جانی لالٹین والا مشہور ہوچکا تھا۔ پہلے پہل تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ۔ہر جمعرات کو لالٹین کہاں سے اور کیوں آتی ہے۔؟؟؟ پھر آہستہ آہستہ لوگوں کو ایک دوسرے سے پتہ چلا کہ۔ لالٹین والا جانی نام کا ایک آدمی ہے۔اور وہ اپنی محبوبہ سے ملنے آتا ہے۔ اس محبوبہ سے ملنے جس کو مرے ہوۓ بھی آج کئی سال ہوگئے تھے۔ مگر وہ اس کے مرنے سے لیکر آج تک برابر آتا ہے۔ لوگوں اس محبت پہ رشک کرتے تھے۔ اور جانی سے محبت اور احترام سے ملتے تھے۔ انہوں نے آج تک ہیر رانجھا کے قصے سنے تھے۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

مگر یہ کہانی ان کی زندگی کی انوکھی کہانی تھی۔ جانی اپنے معمول کے مطابق ایک جمعرات لالٹین لیے کنوے پہ جاپہنچا۔ وہاں سے وہ شمشان گھاٹ گیا۔کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا اور پھر واپس کنوے پہ آکے اس کی منڈیر پہ ٹک گیا۔ لالٹین اس نے کنوے پہ رکھ دی تھی۔ اور یونہی بیٹھا سامنے پگڈنڈی کو تکنے لگا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ اسے ء پھاڑ کر غور سے اس طرف دیکھنے لگا۔ سایہ اب کچھ اور قریب آگیا تھا۔ جانی یوں اچھل کر کھڑا ہوا تھا۔جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ حیرت کا شدید احساس لیے بےاختیار اس کے منہ سے ایک لفظ نکلا تھا۔۔ راما ڈرنے کی بجاۓ وہ بھاگ کر آگے گیا تھا۔ کنوے کی منڈیر پہ پڑی لالٹین کی لو ہلکے سی لہرائی تھی۔

جیسے خوشی سے جھوم اٹھی ہو۔ ۔راما جانی کو کئی سال سے ہر جمعرات کو آتا دیکھ رہی تھی۔ وہ اکثر اس کے ساتھ اس کے ڈیرے پہ بھی چلی جاتی تھی۔ اور صبح ہوتے ہی لوٹ آتی تھی۔ اس نے اپنے باپ کو بھی واپس جاتے دیکھا تھا۔مگر خواہش کے باوجود وہ اپنی ماں اور بہن کے لیے کوئی پیغام نہ دے سکی تھی۔ نہ اس کی آواز ان تک پہنچتی تھی۔اور نہ ہی وہ اس کا لمس محسوس کرتے تھے۔ وہ بس بےبسی سے سب دیکھ اور سنتی تھی۔ اس کا باپ اس کی استھیاں لیکر جارہا تھا۔ اور وہ اپنے باپ کو روکنا چاہتی تھی۔ کہ وہ اس کی استھیاں لیکر نہ جاۓ۔بلکہ اس کے محبوب کی سرزمین میں ہی اس کی راکھ کو دفنادیا جاۓ۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

یہ راما کی خواہش تھی۔مگر وہ یہ سب کہ بھی دیتی تو کسی کو نہیں سننا تھا ۔ نہ کوئی جان سکتا تھا۔ راما کے دل سے یہ خیال نکل گیا تھا کہ۔ اس کی استھیاں گنگا میں بہانے سے وہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلی جاۓ گی۔ اسے جانی کی بات کا یقین ہوگیا تھا کہ۔ جانی نے کہا تھا۔ راما کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ۔اس کی استھیاں بہادی جائیں۔یا نہیں۔کیونکہ وہ مرنے سے پہلے ہی ان لوگوں جیسی نہیں رہی تھی۔اور راما کو جانی کی ہر بات پہ دل جان سے یقین ہوتا تھا۔ ویسے بھی اس کو پاتال میں لےجانے والے جب اسے اس کی نیت کی وجہ سے چھوڑگئے تھے۔تو اسے اسی وقت یقین ہوگیا تھا۔کہ اللہﷻ نیتیں دیکھتا ہے۔

اور اس کو اس کی نیت اور ارادے کی وجہ سے پاتال سے بچالیا گیا تھا ۔ بھگوان داس کو گئے ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے جب ایک شام اختر جانی سے ملنے آیا۔ اس کے ہاتھ میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی پوٹلی تھی۔ اس نے جانی کو وہ پوٹلی دی اور بتایا کہ اس میں راما کی استھیاں ہیں۔ بھگوان داس جو گڑوی لےگیا ہے وہ خالی ہے۔ اختر نے جانی کو بتایا کہ۔ بھگوان داس کے جانے کے کچھ دن بعد ایک روز چاچا شفیع یہ پوٹلی لیکر آیا تھا۔ اس نے کہا کہ۔ جو گڑوی بھگوان داس لےگیا ہے وہ خالی ہے۔ کیونکہ اس کی پوتی نے گڑوی سے یہ راکھ نکال کر اس کو ویسے ہی باندھ دیا تھا۔ اور یہ راکھ اس پوٹلی میں ڈال کر ایک جگہ رکھ دی تھی۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

اس نے کہا کہ اس کی ایک ہندو سہیلی نے اسے ایک بار بتایا تھا کہ۔ مرنے والے کی استھیاں اگر کسی کپڑے میں باندھ کر کچھ دن کے لیے کسی ویران جگہ پر لٹکادی جائیں تو مرنے والا وہاں آنا شروع کردیتا ہے۔اور پھر اس سے آپ اگر کچھ پوچھنا چاہیں تو بتادیتا ہے۔ اختر اسے بتارہا تھا اور جانی خاموشی سے سن رہا تھا۔ پھر کیسے پتہ چلا ان کے بارے میں؟؟؟ جانی نے اس پوٹلی کی طرف اشارہ کرکے اختر سے پوچھا۔ چاچا شفیع کہہ رہا تھا کہ کل اس کے بیٹے کی بیوی نے صفائی کرتے ہوۓ اس پوٹلی کو دیکھ لیا۔ اختر نے جواب دیا تھا۔ اس کے پوچھنے شفیع کی پوتی نے سب سچ بتادیا۔کہ وہ اسے کہیں لٹکانا چاہتی تھی

مگر وقت ہی نہ ملا۔ چاچا شفیع بہت افسوس کررہا تھا کہ۔ بھگوان داس اتنی دور سے یہ لینے آیا تھا ۔مگر بےچارہ خالی ہاتھ گیا۔ وہ پھر کل مجھے دےگیا ۔کہ بھگوان داس کے گاؤں کا کوئی آدمی آۓ جاۓ تو اسے دے دوں۔ میں تمہارے پاس لے آیا ہوں۔ اختر نے اپنی بات مکمل کی اور۔ جانی کی طرف دیکھنے لگا۔ اختر تم جانتے ہو۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایسی کسی بات پہ یقین نہیں۔ یہ سب ہندؤں کی اپنی من گھڑت باتیں ہیں۔ جانی نے اختر سے کہا۔ چاچا شفیع بھی یہی کہہ رہا تھا۔ اختر نے جانی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ہم جانتے ہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔چاہے اس راکھ کو سوسال بھی کہیں لٹکاۓ رکھو۔

لالٹین راما کو لگا تھا کسی نے بہت دور سے اس کا نام لیکر اسے پکارا ہے۔

اگر ایسا ہونے مجھے زرا سا بھی یقین ہوتا تو۔ میں اسے اپنے مرتے دم تک کہیں لٹکاۓ رکھتا۔اور راما کے آنے کا انتظار کرتا۔ جانی نے کہا تھا۔راما کے ذکر پر اس کی آنکھیں آنسوؤ سے جھلملا گئی تھیں۔ اختر بھی افسردہ ہوگیا تھا۔ پھر بھی تم نے اچھا کیا۔اسے یہاں لے آۓ۔ جانی نے اختر سے کہا۔ میں اسے سنبھال کر رکھوں گا۔اور اگر کوئی بھگوان داس کے گاؤں گیا تو اسے دے دونگا۔ یا ہوسکتا ہے کبھی رنجیت یا بھگوان داس آجاۓاسے دے دونگا۔ ورنہ میرے پاس پڑی رہے گی۔ اس کی نشانی کے طور پہ۔ آخری فقرہ جانی نے بڑی حسرت سے کہا تھا۔ راما ہر وقت میرے ساتھ ہی ہوتی ہے اختر۔ جانی نے محبت سے کہا ۔

کوئی پل ایسا نہیں میں جب اسے یاد نہ کرتا ہوں۔ وہ جسمانی طور پہ مجھ سے دور تو ہوگئی ہے ۔میں اسے دیکھ نہیں سکتا۔مگر میری یاد میں میرے دل میں وہ آج بھی زندہ ہے۔ اور ہمیشہ رہے گی۔ جانی کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ اس بات سے بےخبر تھا ۔کہ راما سچ میں اس کے پاس ہے۔ مگر وہ اسے محسوس نہیں کرسکتا۔ اس نے پوٹلی کو گھر میں سنبھال کررکھ دیا۔ وقت گزرتا رہا۔ گامو کی شادی بھی ہوگئی تھی۔ مگر جانی اب بھی راما کا ہی تھا۔اور مرتے دم تک اسے کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی نہیں تھا۔ یہی اس نے سوچ رکھا تھا. جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *