ہمارے بہت سے عزیز رشتے دار دُنیا چھوڑ کر ہمیشہ کےلئے چلے جاتے ہیں
ہم اپنے ہاتھوں کفن پہنا کر اپنے کندھوں پر قبرستان چھوڑ کر آجاتے ہیں. ہم کہتے ہیں یہ رشتے فوت ہوگئے. لیکن ان کی یادیں زندہ رہتی ہیں. کیونکہ انسان کی موت تب ہی ہوتی ہے. جب اس کی یادیں یا اس کو یاد کرنے والے ختم ہو جاتے ہیں.
اس لئے قرآن مجید سورۃ الاحزاب .میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم .کیلئے کہتا اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا ۞ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بیجھتے ہیں تم بھی اے. ایمان والو ان پر خوب درود و سلام بیجھو. جب تک اس دنیا. کی پشت پر کوئی ایک مسلمان بھی زندہ ہوگا نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زندہ ہوں گے. اور آسمان تو ان کے ذکر سے آباد ہی ہیں.
ہمارے بہت سے عزیز رشتے دار دُنیا چھوڑ کر ہمیشہ کےلئے چلے جاتے ہیں
گھوڑے کی نعل کی شکل میں دماغ کا حصہ جو یادداشت جمع کرتا ہے اسے Hippocampus کہا جاتا ہے. یہی حصہ دماغ ہے جو آپ کو یاد دلاتا ہے آپ کون ہیں اور مستقبل سے آپ کا جوڑ بناتا ہے. آپ ڈائمنشیا یعنی یادداشت کھو جانے والے کسی بیمار کو دیکھیں بظاہر صحت مند صحیح سلامت وہ انسان جب یادداشت کھو دیتا ہے تو جیتے جی اپنے رشتے اپنا گھر اور اپنا آپ کھو دیتا ہے.
معاشروں کا مستقبل بھی تب بنتا ہے جب ان کی یادداشت اچھی ہو. قانون یادداشت کا نام ہے. کسی قاتل کی ماں کسی چور کے عزیز اسے مجرم نہیں مانتے. کیونکہ وہ اس کا ماضی نہیں اپنا رشتہ دیکھنا چاہتے ہیں. ہاں قانون کو اس لئے اندھا کہا جاتا ہے کہ وہ چہروں پر نہیں یادداشت پر چلتا ہے.جب کسی معاشرے کا قانون اور وہ معاشرہ سانحہ ماڈل ٹاؤن.بلدیہ، سانحہ ساہیوال جیسے واقعات بھول جاتا ہے، جب قانون جرم نہیں حیثیت دیکھنا شروع کردے. تو ایسے معاشرے ڈائمنشیا کے بیمار جیتے جی زندہ لاشوں کے چلتے پھرتے بازار بن جاتے ہیں.
ریاض علی خٹک