سیکھنے اور سکھانے کا عمل آجاؤ مل کر سکھاتے ہیں
سیکھنے اور سکھانے کا عمل آجاؤ مل کر سکھاتے ہیں
تحریر۔عتیق الرحمن
جب سے یہ گروپ جوائن کیا ہے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا ہے۔
بہت سے احباب کی تحریریں خاص کر استاد محترم وہارا امبارکر صاحب کی ہر تحریر ذہن کو جلا بخشتی ہے اور سوچ کے نئے دروازے وا ھوتے ھیں۔
آج میری اس تحریر کا موضوع ہنر مندی/ ٹیکنیکل علم سیکھنے اور سکھانے کے عمل بارے ھی ھے۔
جس میں اپنے تعلیمی دور اور انڈسٹریز میں گزارے وقت کے تجربات بھی بتانے کی کوشش کروں گا۔
سیکھنا اور سیکھانا۔۔۔۔ دونوں کے لئے شوق، لگن اور محنت کی ضرورت ھوتی ھے۔
میرا ماننا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام آپ صرف دو وجہ سے کرتے ھیں۔
1. آپ کو وہ کام کرنےکا شوق ھے
2. آپ کو وہ کام کرنے کی مجبوری ھے۔
اور کامیاب وھی ھوتا ھے جو اپنے شوق کو مجبوری اور مجبوری کو شوق بنا لیتا ھے۔
مزید پڑھیں۔۔۔جانوروں کی دنیا خطرناک اور جان لیوا جانوروں کی کہانی
کیونکہ جب زندگی اچھے سے گزارنی ھے تو پھر کام تو کرنا ھی پڑے گا۔۔چاھے شوق سے کریں یا مجبوری سے۔ بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام۔۔۔ ھر گزرتے وقت کے ساتھ زوال پزیری کی طرف گامزن ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ 80 کی دھائی کے اخیر اور 90 کی دھائی کے شروع کے سکول دور میں ساتویں کلاس سے ھی ٹیکنیکل اور زرعی تعلیم شروع ھو جاتی تھی۔ کئی شعبے تھے۔ جیسے ووڈ ورک، میٹل ورک/ فیبریکیشن، الیکٹریشن، زراعت وغیرہ۔ طالب علم اپنے شوق اور پسند سے متعلق اختیاری مضمون کو رکھ لیتے تھے۔ ان شعبوں سے متعلق تھیوری بھی پڑھائی جاتی اور باقاعدہ ورکشاپس بھی ھوتی تھیں جہاں عملی طور پر کام کروا کے سکھایا جاتا تھا۔
نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ میٹرک کرنے کے بعد ایسی افرادی قوت موجود ھوتی تھی جو آگے اگر کسی وجہ سے تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے تو بنیادی ہنر مندی موجود ھونے کے باعث والدین اور معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے سہارا بنتے تھے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آٹھویں یا نویں کلاس سے ھی ٹیکنیکل تعلیم رائج ہے اور وھیں سے ھی طالب علم اپنی پسند کے متعلق شعبہ کا چناؤ کر کے اسے سیکھتا ہے اور آگے پڑھتا بھی ھے۔ ھمارے ملک میں سکول کی سطح پر یہ سلسلہ موقوف ھونے سے اب حالت یہ ھے کہ بچے کالج لیول تک بھی چلے جاتے ھیں اور انھوں نے عملی زندگی میں کس شعبے میں جانا انھیں نا خود پتا ھوتا ھے اور نا ھی اس بارے آگہی کا کوئی باقاعدہ نظام ھے۔
مزید پڑھیں۔۔واٹس ایپ کی سیکورٹی واٹس ایپ کو محفوظ کیسے کریں
ٹیکنیکل تعلیم ۔۔۔۔ھمارے ملک کے طول وعرض میں بےشمار گورنمنٹ اور پرائیوٹ ٹیکنیکل کالجز اور انسٹیٹیوٹ موجود ھیں جو کہ مختلف شعبہ جات میں ٹیکنیکل تعلیم دیتے۔ مگر عالم یہ ھے جو پڑھایا جاتا ھے اور جو پریکٹیکل کے نام پر سکھایا جاتا ہے اس کے بعد جب بندہ عملی زندگی میں کسی ادارے/ انڈسٹری میں قدم رکھتا ھے تو اس کے ہوش ھی اڑ جاتے ھیں۔ کالج میں پڑھائی اور سکھائی شائد ابتدائی انٹرویو میں ھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
میں اس بارے اپنا ایکسپیرئینس بتاتا ھوں۔جب DAE الیکٹریکل کے بعد انڈسٹری جوائن کی تو موٹر کے بارے میں جو تصور یا کانسیپٹ کالج کی تھیوری اور پریکٹیکل سے ملا تھا وہ دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔
کیونکہ کالج کی پڑھائی اور سیکھائی سے ھمیں موٹر کا کانسیپٹ جو ملا تھا وہ تھا گھر میں لگی ڈونکی پمپ کی موٹر یعنی موٹر بس اس طرح اور سائز کی ھوتی ھے۔انڈسٹری میں جب 7500 ھارس پاور کی لگی 2 مرلہ سے زیادہ جگہ گھیرے ہوئے موٹریں دیکھی تو حیران وپریشان رہ گیا۔ یہ بتانے کا مقصد ھے کہ سیکھ تو ھم لیں گے ھی اگر شوق لگن اور جستجو ھو۔ مگر کیا ھی اچھا ھو کہ ہمارا تعلیمی نظام، ادارے سکول کالج یونیورسٹیاں صرف پڑھانے نہیں سکھانے کا عمل بھی شروع کریں۔ تو بہت سی چیزیں جو ھم سر پڑنے پر سیکھتے ھیں پہلے ھی سیکھ لیں گے۔
سیکھنے اور سکھانے کا عمل آجاؤ مل کر سکھاتے ہیں
اس بارے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔
1. سکول کی سطح پر ٹیکنیکل تعلیم کو دوبارہ رائج کیا جائے۔
2. ٹیکنیکل اداروں میں موجود اساتذہ کیلئے بھی ملازمت سے پہلے یا ملازمت کے دوران انڈسٹری میں کچھ تجربہ یا انٹرن شپ کو لازمی قرار دیا جائے۔
3. ٹیکنیکل کالجز کے تمام طالب علموں کو ہر سال چھٹییوں میں کم سے کم ایک ماہ کیلئے نزدیکی انڈسٹری میں بھیجا جائے۔
یا۔۔
صنعتی ادارے۔۔۔ اپنے انجینئر اور تکنیکی ماہرین کو ٹیکنیکل اداروں اور یونیورسٹیوں میں بھیجیں تاکہ وہ طلبہ کے کانسیپٹ کلئر کر سکیں۔
4. یونیورسٹیاں بھی بجائے تیسرے یا چوتھے سال انٹرن شپ کی بجائے ہر سال طالب علموں کو انڈسٹریز میں کم از کم ایک ماہ کے لیے بھیجیں۔
5. ٹیکنیکل نصاب اور لٹریچر کو موجودہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
6. صنعتی اداروں/ انڈسٹریز کو قانوناً پابند کیا جائے کہ وہ ٹیکنیکل تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو اوپر بتائی گئی تجاویز کے مطابق سہولتیں فراہم کریں۔
سیکھنے اور سکھانے کا عمل آجاؤ مل کر سکھاتے ہیں
مندرجہ بالا تحریر میں نے اپنے زاتی مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں لکھی ھے۔
ہر کسی کا اس سے متفق ھونا ضروری نہیں ھے۔ آپ اختلاف رائے کا پورا حق رکھتے ہیں۔
اچھے بحث ومباحثہ سے ہم اور بہت کچھ سیکھ سکھتے ہیں
Leave a Reply