لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
لالٹین قسط1 تحریر۔۔قلم ابن علیم رانا
رانا راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔ جانی نے ستارے دیکھ کر وقت کا اندازہ کیا اور لالٹین اٹھا کر چل پڑا۔ آج اس کا دل بے حد اداس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آج کوئی اس کا انتظار نہیں کررہا ہوگا۔ اور نہ ہی کوئی اس سے ملنے آۓ گا۔مگر وہ پھر بھی چل پڑا تھا۔ آج اس کے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ اسے سب اپنے دل کی طرح اداس اداس سا لگ رہا تھا۔ کنوے پہ پہنچا تو دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ وہ کنویں کی منڈیر پہ بیٹھ گیا۔ اور بےآواز روتا رہا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ راما مرچکی ہے۔ اسے لگتا تھا جیسے ابھی راما آجاۓ گی۔اور آتے ہی اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ جوڑ کر کہے گی۔ شما کردیجیے۔لیٹ ہوگئی۔
اور وہ اس کے ہاتھوں کو تھام کر کہے گا۔ ایسے نہ کہا کرو راما۔ کوئی بات نہیں لیٹ ہوگئی ہو تو کیا ہوا۔ آتو گئی ہونا۔؟؟؟ راما کے معافی مانگنے کا مخصوص انداز اس کے تصور میں آیا تو آنکھوں میں آنسو ہونے کے باوجود وہ مسکرادیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔اور اس کی جگہ درد نے لے لی۔ وہ کافی دیر کنوے پہ بیٹھا رہا۔مگر نہ راما کوآنا تھانہ وہ آئی۔ جانی کی نظریں نہ چاہتے ہوۓ بھی گاؤں سے آتی پگڈنڈی کی طرف چلی جاتی تھیں۔ پھر وہ وہاں سے اٹھا اور۔ شمشان گھاٹ کی طرف چل پڑا۔ جہاں راما کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔ شمشان گھاٹ پہ پہنچ کر وہ اس جگہ بیٹھ گیا
مزید پڑھیں۔۔۔ایک گاؤں میں بہادر لڑکا رہتا تھا جس کا نام ماہر تھا
جہاں راما کی میت کو رکھا گیا تھا۔ وہاں اب سواۓ راکھ کی ڈھیری کے اور کچھ نہیں تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر راکھ کو اپنی مٹھی میں لیا۔اور پھر اس کا صبر جواب دے گیا۔ وہ دھاڑیں مارمار کر رویا۔ راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی دفعہ تھا کہ جانی یوں ٹوٹ کر رویا تھا۔ وہ بار بار راما کا نام لیکر اسے پکار رہا تھا۔ عین اسی لمحے کسی نے اس کے کندھےپر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تھا جب پاکستان وجود میں آیا تو۔ لوگ اپنے اپنے گھربار چھوڑکر آئے اور گئے تھے۔ پاکستان سے جانے والوں کو کو انڈیا میں اور انڈیا سے آنے والوں کو پاکستان میں گھر مل گئے تھے۔ جانے والوں میں جانی کا دوست رنجیت سنگھ اور راما کا خاندان بھی تھا۔
وہ یہاں ایک ہی گاؤں سے گئے تھے اور انڈیا میں بھی وہ اکٹھے ہی ہریانہ کےایک گاؤں میں جابسے تھے۔ رنجیت سال میں ایک دوبار اپنے دوست جانی اور اختر سے ملنے آیا تھا۔ جانی اور اختر کا گاؤں پاکستان کاہی حصہ تھا ۔اس لیے ان کو کہیں نہیں جانا پڑا۔ راما کا گھر انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے ایک بوڑھے مسلمان محمد شفیع کو مل گیا تھا۔ محمد شفیع بھی ان مظلوم مسلمانوں میں سے ایک تھا جو پاکستان کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑکر پاکستان آگئے تھے۔ شفیع کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔وہ اپنے سسرال سمیعت آکر کسی اور گاؤں میں آباد ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں۔۔۔ایک گاؤں میں بہادر لڑکا رہتا تھا جس کا نام ماہر تھا
البتہ شفیع کا ایک بیٹا اور پوتا راستے میں بلوائیوں کے حملے میں شہید ہوگیا تھا۔اور باقی تین یہاں پہنچے تھے ۔جن میں سے ایک شادی شدہ تھا۔ اس کے دوبیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔جن میں سے ایک بیٹا راستے میں مارا گیا تھا۔ اور بھی یہاں بہت سے خاندان ایسے آۓ تھے۔جو انڈیا سے اگر دس افراد چلے تھے تو پاکستان پہنچنے تک پانچ یا چھ ہی بچے تھے۔ انڈیا سے آنے والے ہر خاندان کی کہانی کچھ ایسی ہی تھی۔ اپنی زمین جائیدار گھربار اور اپنے پیاروں تک کو قربان کرکے آنے والوں کو پاکستان کی حقیقی قدر تھی۔ انہوں نے اتنی قربانیاں دینے کے باوجود بھی کبھی یہ گلہ نہیں کیا تھا کہ۔ پاکستان نے ہمیں کیا دیا
حالانکہ انہوں نے پاکستان کو اپنے پیاروں کا خون تک دےدیا تھا۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہاں آباد ہوگئے۔ محمد شفیع کو راما کے باپ بھگوان داس تیواری کا گھر ملا تھا۔ وہ گھر جہاں کبھی ایک ایسی لڑکی رہتی تھی۔ جس کا دل اس کے چہرے جیسا ہی خوبصورت اور پیارا تھا۔ وہ لڑکی جس نے مذہب وقوم سے ہٹ کر محبت کی تھی۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کا محبوب ایک مسلمان ہے۔ ہندو ہونے کے باوجود اس کی پاک اور سچی محبت نے اسے مسلمانوں کے خدا کے قریب کردیا تھا۔ اور وہ اپنی محبت کے لیے سب کچھ تیاگنے کو تیار تھی۔ حتیٰ کہ۔اپنا مذہب بھی۔۔۔۔ مگر۔۔۔ اسے اظہار کا موقع نہ ملا۔۔۔
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
اچھائی کے ساتھ برائی بھی مقابلے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ مگر جیت ہمیشہ اچھائی کی ہی ہوتی ہے۔ اچھائی اور اچھا انسان ہمیشہ امر ہوتا ہے۔ وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ شفیع جب انڈیا سے آیا تو وہ کسی اور گاؤں میں گیا تھا۔ دو ہفتے بعد اسے پتہ چلا کہ اس کا چھوٹا بھائی ارشاد اپنے خاندان سمیعت اندان نامی گاؤں میں آباد ہے۔تو وہ بھی پوچھتا ہوا اپنے بھائی کے پاس آپہنچا۔ محمد شفیع کو پٹواری نے دوچار گھر بتاۓتھے۔ اور کہا تھا ان میں سے جو پسند آۓ اس کا تالا توڑ کر آباد کرلینا۔ شفیع دو دن پہلے ہی یہاں پہنچا تھا۔ اندان گاؤں میں اس وقت وہ اپنے بھائی کے گھر رہ رہا تھا۔ محمد شفیع کو راما کا گھر پسند آیا تھا۔
اگلے ہی دن شام کے وقت اس نے اس گھر کا تالا توڑا ۔اور اللہﷻ کا نام لیکر اندر داخل ہوگیا۔ مگر محمد شفیع اس بات سے بےخبر تھا کہ عین اسی لمحے اس کے ساتھ کوئی اور بھی اس گھر میں داخل ہوا تھا۔ اندر داخل ہوکر اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ اندر سے گھر ٹھیک ٹھاک تھا۔ سامنے ہی برآمدہ اور اس کے پیچھے کمرے تھے۔ وہ چلتا ہوا برآمدے تک پہنچا۔ اور پھر ایک ایک کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ کسی بھی کمرے کے دروازے پر تالا نہیں تھا۔ گھر کسی حد تک صاف ستھرا تھا۔ کیونکہ مکینوں کو گئے ابھی پندرہ بیس دن ہی ہوۓ تھے۔ شفیع کمرے دیکھتا ایک نسبتاً چھوٹے کمرے پہ آرکا۔ اس نے اس کا دروازہ کھولا اور اندر جھانکا۔
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
کمرہ خالی تھا۔ یہ کمرہ رہائشی نہیں لگ رہاتھا۔ شفیع تجسس کے مارے اندر داخل ہوگیا۔ محمد شفیع اب بھی بےخبر تھا کہ۔ اس کے ساتھ کوئی اور بھی اس کمرے میں داخل ہوا ہے۔ اندر بند کمرے کی مخصوص باس اور کافور سے ملتی جلتی خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ اندر داخل ہوتے ہی شفیع کی نظر سامنے پڑی ایک چھوٹی سی مورتی پر پڑی۔ جس کے آس پاس گیندے کے سوکھے پھول بکھرے ہوۓ تھے۔ یہ ان کا پوجا کا کمرہ ہوگا۔؟؟؟ شفیع نے سوچا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس مورتی تک جاپہنچا۔ اس نے مورتی اٹھا کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اسی طاق میں رکھ دی۔
اس کے بعد وہ کمرے سے نکلا اور صحن عبور کرکے گھر سے نکل گیا اس کے ساتھ نظر نہ آنے والا وہ وجود بھی گھر سے نکل گیا تھا۔ رات کا کھانا کھا کر شفیع نے ان لوگوں کو ساتھ لیا اور راما کے گھر آباد ہوگیا۔ اس گھر میں شفٹ ہونے کے بعد محمد شفیع کے گھر والوں نے پورے گھر کو صاف کیا تھا۔ وہ پوجا والا کمرہ بھی صاف کیا گیا۔ اور اس کو دوسرے کمروں کی نسبت چھوٹا ہونے پر سٹور بنالیا۔ وہاں گھر کا فالتو اور روز مرہ استعمال ہونے والا سامان رکھ دیا گیا۔ صفائی کے دوران اس کمرے سے مٹی کی ایک چھوٹی سی گڑوی ملی تھی۔ جس میں تھوڑی سی راکھ اور سندور تھا۔ ایک سرخ کپڑے سے اس کا منہ بند کیا گیا تھا۔
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
انہوں نے اس گڑوی اور وہاں رہ جانے والی مورتی کو بھی ایک پرانے ٹرنک میں رکھ دیا۔ جانی کو احساس ہی نہیں ہوا کہ۔ کسی نے اس کے کندھےپر ہاتھ رکھا ہے۔ اور اس کا نام پکارا ہے۔ وہ اسی طرح زمین پر بیٹھے روتا رہا۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ۔ وہاں رونے والا وہ اکیلا نہیں ہے۔ کوئی اور ان دیکھا وجود بھی اس کے ساتھ رورہا ہے۔مگر رونے والا دوسرا وجود اسے نظر نہیں آرہا تھا۔اور نہ ہی جانی اس کا لمس محسوس کر سکتا تھا۔ بہت دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہ اٹھا۔ اور مرے مرے قدموں سے کنویں کی طرف چل پڑا۔ اس کے پیچھے پیچھے وہ نظر نہ آنے والا وجود بھی کنوے تک آیا۔ کنوے پہ آکے وہ ان دیکھا وجود جانی کے سامنے آگیا۔
مگر جانی اپنی رو میں چلتا رہا۔ اور سامنے آنے والے اس وجود میں سے یوں گزر گیا۔ جیسے انسان دھوئیں سے گزرجاتا ہے۔ اس وجود نے جانی کو روکنے کی کوشش کی مگر۔ ناکام رہا۔ اس کا لمس جانی کو محسوس ہی نہیں ہورہا تھا۔ اور نہ وہ وجود جانی کو اپنا احساس دلا سکتا تھا۔ جانی آگے چل دیا۔اور وہ غیر مرئی وجود وہیں کنوے پر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں بےبسی کے آنسو تھے۔ جو نہ کسی کو نظر آسکتے تھے۔اور نہ ہی وہ خود کسی کو نظرآسکتا تھا۔ جانی دور ہوتا جارہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے بھی حرکت کی اور دور ہوتی لالٹین کی روشنی کے پیچھے چل پڑا۔ جانی تھکے سے وجود کے ساتھ ڈیرے پر پہنچا
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
اور چارپائی پہ لیٹ کر راما کے بارے میں سوچنے لگا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ راما کے خیال سے اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو جاری ہوگئے۔ وہ چت لیٹا چھت کو دیکھے جارہا تھا۔اور آنسو دونوں آنکھوں کے گوشوں سے نکل نکل کر تکیے میں جزب ہورہے تھے۔ کنوے سے اٹھ کر وہ وجود بھی جانی کے پیچھے پیچھے اس کے ڈیرے تک آیا تھا۔اور اب اس سے کچھ دور کھڑا بےبسی اور درد سے اسے روتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ راما کے ماں باپ ہریانہ کے ایک گاؤں میں جا بسے تھے۔ اس کے گھر والے آج بھی راما کو یاد کرکے روتے تھے۔ خاص طور پہ اس کی چھوٹی بہن اور ماں اکثر بات بےبات راما کویاد کرکے روپڑتی تھیں۔
ایک دن یونہی وہ کسی بات پہ راما کویاد کررہی تھیں جب اچانک ہی راما کی ماں کو کچھ یاد آیا اور۔ وہ اٹھ کر اندر کی طرف بھاگی۔ اندر پڑے سامان کو وہ الٹ پلٹ کرتی رہی مگر اسے کچھ نہ ملا۔ اتنے میں راما کی چھوٹی بہن بھی اندر آگئی۔ ماتا کیا کھوج رہی ہو؟؟؟ اس نے اپنی ماں سے پوچھا۔ جو سامان کو ادھر ادھر کرکے کچھ شاید کچھ تلاش کررہی تھی۔ راما کی استھیاں نہیں مل رہیں۔ اس کی ماں نے اپنی بیٹی کوجواب دیا اور پھر ڈھونڈنے لگ گئی۔ ماتا کہیں آپ اسی گھر میں تو نہیں بھول آئی؟؟؟ راما کی بہن نے اپنی ماں سے کہا تو۔ اچانک ہی جیسے اس کی ماں کو کچھ یاد آیا۔ کیا پتہ وہیں نہ رہ گئی ہوں۔
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
اس کی ماں نے کہا۔ میں نے پوجا والے کمرے میں گڑوی میں باندھ کر رکھی تھیں۔ شاید ساتھ لانا بھول گئی میں۔ راما کی ماں کے چہرے پہ دکھ اور افسوس تھا۔ ہاۓ بھگوان اب ہم کیا کریں؟؟؟ اس کی ماں نے افسوس سے کہا تھا۔ اگر راما کی استھیاں گنگا میں نہ بہائیں تو میری بیٹیا کی آتما کو شانتی نہیں ملے گی۔ وہ یونہی بھٹکتی رہے گی۔ راما کی ماں اب رونے لگ گئی تھی۔ ماتا پریشان نہ ہوں۔ پتا کو بھیج کر ہم دیدی کی استھیاں منگوالیں گے۔ اس کی بیٹی نے اسے چپ کرایا اور حوصلہ دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اسے بھی دکھ ہوا تھا کہ۔ راما کی استھیاں وہیں رہ گئی ہیں۔اور اگر وہ نہ ملیں
اور ان کو گنگا میں نہ بہایا تو اس کی بہن راما کی آتما کو شانتی نہیں ملے گی اور وہ ہمیشہ بھٹکتی رہے گی۔ شام کو راما کا باپ آیا تو اس کی ماں نے اپنے شوہر کو وہی بات بتائی اور اسے کہا کہ وہ پاکستان جاکر اس گھر سے راما کی استھیاں لے آۓ۔ اس کے باپ کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ویسے بھی اس وقت آنے جانے پہ کوئی پابندی نہیں تھی۔ ادھر ادھر سے لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے چلے آتے اور جاتے تھے۔ بس سفر پیدل کرنا پڑتا تھا۔ یا بیل گاڑی وغیرہ پر ۔ جس میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ راما کے باپ نے اپنی بیوی سے دوچار دن بعد جانے کا وعدہ کرکے اسے تسلی دے دی تھی۔ راما کی ماں مطمئن ہوگئی تھی۔
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
اسے بس ایک ہی فکر تھی کہ۔ استھیاں کہیں گم نہ ہوگئی ہوں۔ ٹھیک تین دن بعد بھگوان داس پاکستان آنے کے لیے اپنے گھر سے نکل چکا تھا۔ اسے کسی بیل گاڑی پر لفٹ مل جاتی تو وہ بیٹھ جاتا۔ورنہ پیدل چلتا رہتا۔ جس گاؤں میں رات پڑجاتی وہیں کسی نہ کسی گھر رات گزارلیتا اور صبح ہوتے ہی پھر چل پڑتا۔ تقریباً دس گیارہ دن کے بعد وہ پاکستان اپنے آبائی گاؤں اندان پہنچ گیا تھا۔ گاؤں کی حدود میں پاؤں رکھتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔ اسے اپنے یہاں گزرے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی لاڈلی بیٹی راما بھی یاد آگئی تھی۔ شام کا وقت تھا وہ جب اندان گاؤں پہنچا تھا۔
گاؤں میں داخل ہونے کی بجاۓ وہ سیدھا شمشان گھاٹ چلا گیا ۔ شمشان گھاٹ میں اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔ بس ایک طرف چند ادھ جلی سی لکڑیاں پڑی تھیں۔ بھگوان داس کچھ دیر یونہی وہاں بیٹھا راما کو یاد کرکے آنسو بہاتا رہا۔ اس نے کچھ پانی وہاں چھڑکا۔اور چند سوکھے پھول جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لایا تھا۔ وہاں پھینکے اور اٹھ کر گاؤں کی طرف چل دیا۔ گاؤں میں اس کے جاننے والوں میں جانی کے دوست اختر کا والد اکبر حسین بھی تھا۔ وہ سیدھا اس کے پاس ہی گیا۔ بھگوان داس کو اچانک دیکھ کر اختر اور اس کا باپ حیران رہ گئے تھے۔ انہوں نے بھگوان داس کو دل سے خوش آمدید کہا۔
لالٹین راما کے مرنے کے بعد یہ پہلی جمعرات تھی۔
اور اسے اپنے گھر بٹھایا۔ بھگوان داس جی اچانک کیسے یاد آگئی ہماری۔؟؟؟ اختر کے والد نے بھگوان داس سے پوچھا۔ جواب میں بھگوان داس نے ان کو اپنے آنے کی وجہ بتادی۔ آپ آرام سے کھاؤ پیو صبح شفیع سے مل کر پوچھ لیں گے۔ یا میں ابھی پتہ کرواتا ہوں ۔ اگر شفیع مل گیا تو اس کو یہیں بلوالونگا۔ اختر کے والد نے اس سے کہا۔ اور پھر اختر کو کہا کہ۔وہ بھگوان داس کے کھانے پینے اور سونے کا بندوبست کرے۔ اختر کا والد خود شفیع کو بلانے چلا گیا۔ بھگوان داس کھانا کھارہا تھا جب اختر کا والد شفیع کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہوا۔ علیک سلیک کے بعد شفیع ایک چارپائی پہ بیٹھ کر بھگوان داس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
کھانا کھانے کے دوران ہی بھگوان داس نے شفیع سے پوچھ لیا کہ اسے اس گھر سے کوئی مٹی کی گڑوی ملی ہے؟؟؟ جس میں راکھ ہو؟؟؟ شفیع نے اسے ساری بات بتادی کہ ۔ گڑوی کے ساتھ ایک مورتی بھی ملی تھی۔ جسے ان لوگوں نے ایک ٹرنک میں سنبھال کررکھ دیا ہے۔ بھگوان داس گڑوی کا سن کر خوش ہوگیا تھا۔ اس نے شفیع کا شکریہ ادا کیا۔کہ ان لوگوں نے اسے پھینکا نہیں بلکہ سنبھال کر رکھ دیا۔ کچھ دیر بیٹھ کر شفیع ان سے اجازت لیکر چلا گیا۔ اور جاتے جاتے کہ گیا تھا کہ۔کل بھگوان داس دوپہر کا کھانا اس کے گھر کھائیں گے۔ اور اپنی امانت بھی لے لیں گے۔ جاری ہے