مجھے تو کل ہی پتا چلا ہے کہ میری کس قدر اور کتنی تعداد میں خاموش ریڈر تھے۔
مجھے تو کل ہی پتا چلا ہے کہ میری کس قدر اور کتنی تعداد میں خاموش ریڈر تھے۔
پروفائل پر پبلک کمنٹس بند کئے تو انباکس بھرا گیا کہ ایڈ کر لیں۔ حالانکہ انباکس کرنے والوں کی اکثریت وائبریشن بھی نہیں کرتی تھی۔ ویسے آپ ہر پوسٹ دیکھ سکتے ہیں۔ پوسٹ پبلک ہی کرتا ہوں اس پر کوئی پرائیویسی اپلائی نہیں ہوتی۔
بقول یوسفی “ایک قدیم چینی کہاوت ہے کہ لڑائی کے جو 370 پینترے داناؤں نے گنوائے ہیں، ان میں جو پینترا سب سے کار آمد بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بھاگ لو۔اس کی تصدیق ہندو دیو مالا سے بھی ہوتی ہے۔ راون کے دس سر اور بیس ہاتھ تھے۔پھر بھی مارا گیا۔ اس کی وجہ تو ہماری سمجھ میں یہی آتی ہے کہ بھاگنے کے لیے صرف دو ٹانگیں تھیں۔ ” ۔ آنجہانی جارج کارلن بھی یاد آ گئے۔
“Never underestimate the power of stupid people in large groups”۔
میں تو ٹائیگر فورس بمعہ ففتھیئے اور بلا شرکت غیرے آن لائن تبلیغیوں و تھرناسٹ جہادیوں کے حملوں سے بھاگ لیا ہوں۔ اسی میں عافیت ہے۔جہاں ساری قدریں منسوخ ہو چکی ہوں اور ہر شخص کی جیب میں کھوٹے سکے ہوں وہاں کچھ کہنا، کچھ لکھنا، کچھ بولنا حماقت ہے ۔ یہاں سیاست ، ملائیت، عسکریت و معاشرت کی کھچڑی ہے۔ دانہ دانہ آپس میں گھل چکا ہے۔
مزید پڑھیں۔۔میرا محلے دار ایک دوست کی عیادت کرنے ہسپتال گیا۔
لکھنے والا جو لکھتا ہے اس میں آدھے معنی ہوتے ہیں، باقی آدھے پڑھنے والے میں ہوتے ہیں۔ پڑھنے والا اپنی ذہنی استطاعت و علم کے مطابق معنی اخذ کر لیتا ہے۔ میں نے جو لکھا اس کا ذمہ دار ضرور ہوں مگر جو آپ نے سمجھا اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں لوگ لباس کے ہی نہیں تحریر کے بھی چیتھڑے لے اڑتے ہیں، پورا مدعا سمجھے بنا کسی ایک چیتھڑے کو لے کر اسے واش کرنے لگ جاتے ہیں، اسے لہرانے لگ جاتے ہیں۔ مضمون کا مقصد کیا تھا ، مدعا کیا تھا یا پیغام کیا تھا وہ مکمل فوت ہو جاتا ہے۔ نیز یہ بھی ارسطووں کی کمی تو یہاں پر ہے نہیں لہذا کہیں کی بات کہیں جا ملاتے ہیں اور مدعے سے مکمل ہٹ کر الگ بحث چھیڑ دیتے ہیں۔
اس شخص سے نہیں ڈرنا چاہییے جس نے بہت سی کتابیں پڑھی ہوں مگر اس شخص سے لازمی ڈرنا چاہیئے جس نے ایک ہی کتاب پڑھی ہو وہ بھی اسے مقدس جان کر۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے۔ تاریخ، مذہب، سیاست، ثقافت، کے کئی رخ ہوتے ہیں۔ سچ ہمیشہ کھوج کا متلاشی ہوتا ہے۔ اس پر شک نہ کرو جو کہے کہ میں سچ کی تلاش میں سفر کر رہا ہوں مگر اس شخص پر شک کرنا چاہیئے کہ جو دعوی کرے کہ اس نے سچ کو پا لیا۔ حرف آخر کچھ نہیں ہوا کرتا۔
مجھے تو کل ہی پتا چلا ہے کہ میری کس قدر اور کتنی تعداد میں خاموش ریڈر تھے۔
انسان اپنی ذات میں خوبیوں و خامیوں کا مرکب ہے۔ اس میں علم و دانش بھی ہے اور کج ادائی بھی۔ کھلنڈرا پن بھی ہے، سنجیدگی بھی، طنز و مزاح بھی ہے اداسی بھی۔ انسان کے مزاج بدلتے رہتے ہیں، وہ اندرونی و بیرونی عوامل سے اثر لیتا ہے۔ کوئی تحریر کوئی کتاب دنیا میں ایسی نہیں جس پر 7 ارب انسان اتفاق رکھتے ہوں۔ انسان تو مقدس صحیفوں و الہامی کتابوں پر بھی متفق نہیں۔ یہاں لوگ سیدھا ذات پر اترتے ہیں۔ ایک ایسی جنونی نسل تیار ہوئی ہے جس کے ہاں سوشل میڈیا ان کے گھر کی بیٹھک برابر ہے۔ جسے چاہو گالی نکال دو، جو چاہو منہ کھول کر بک دو۔
انسان اپنی تمام صفات و عادات و خامیوں سمیت زندہ ہے۔ میرے جیسے لوگ انسانی بے ساختہ پن مانگتے ہیں۔ مجھے نہ خود کو کسی مقدس کھونٹی پر ٹانگنے کی تمنا ہے نہ اپنے نام کے ساتھ دامت برکاتھم لکھا دیکھنے کا متقاضی ہوں۔ میں ایک مسافر ہوں، بہت کچھ دیکھتا ،سنتا ، پرکھتا ہوں اور اپنے جذبات کا کھلا اظہار کرنے کا عادی ہوں۔ ہاں، اظہار کرتے وقت تحریر کو لائٹ رکھنے کی خاطر مزاح کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مارک ٹوین نے کہا تھا “اگر تم لوگوں کو یا معاشرے کو آئینہ دکھانا چاہتے ہو تو اسے مزاح میں ڈھال کر دکھاو ورنہ لوگ تمہیں مار دیں گے”۔
مزید پڑھیں۔۔لالٹین اندان گاؤں میں بٹوارے سے پہلے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی
سچائی تلخ و کربناک ہوتی ہے اور کبھی کبھی زہر قاتل بھی۔۔۔ اکثر اوقات بوجھل و سنجیدہ موضوع کو مزاح میں گھول کر لکھتا ہوں تاکہ معاشرے کو، لوگوں کو، نظام کے کرتوں دھرتوں کو ہضم ہو سکے۔ جن کو نقطہ سمجھ آ جاتا ہے وہ سمجھ لیتے ہیں باقی احباب “ہی ہی ہا ہا” کر کے پاس کر دیتے ہیں۔ اور جب پیمانہ چھلک جاتا ہے تو سنجیدہ و اداس تحریر بھی لکھ دیتا ہوں۔ یوں بھی چچا محسن نقوی نے کہا تھا
مجھے تو کل ہی پتا چلا ہے کہ میری کس قدر اور کتنی تعداد میں خاموش ریڈر تھے۔
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
نہ مجھے کسی منصب کی خواہش ہے کہ میرے امیج یا میری ذات کی بابت خلق خدا اتنی معترف رہے کہ کل کلاں کو نیک شہرت میرے کام آ سکے یا اسے کسی صورت کیش کروا سکوں نہ میں گدی نشین ہوں نہ پیر نہ سیاست کرنی ہے نہ ووٹ مانگنا ہے۔ نہ سرکاری عہدے کی کوئی خواہش ہے نہ کسی پنچایت کا رکن بننا چاہتا ہوں۔ میں تو اپنی ذات میں مست انسان ہوں۔ نہ مجھے کسی سے سروکار ہے نہ میں کسی پر آسانی سے کھلتا ہوں۔
لہذا گزارش یہ ہے کہ نہ میں مسجد کا امام ہوں نہ مجھے کلبوں میں ناچنے کا شوق ہے۔ میں ایک عام انسان ہوں اپنے پورے فطری جذبات کے ساتھ۔ برداشت کرنے کا شکریہ مجھے تو کل ہی پتا چلا ہے کہ میری کس قدر اور کتنی تعداد میں خاموش ریڈر تھے۔
ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺑﺠﺰ ﺍِﺫﻥ ﮐﻼﻡ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﭘﻦ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ
Leave a Reply