مندر جلانے والے اہلیان کرک نے پولیو ٹیم پہ حملہ کر کے ایک ورکر کو قتل کر دیا۔

مندر جلانے والے اہلیان کرک نے پولیو ٹیم پہ حملہ کر کے ایک ورکر کو قتل کر دیا۔

مندر جلانے والے اہلیان کرک نے پولیو ٹیم پہ حملہ کر کے ایک ورکر کو قتل کر دیا۔

مومنو یہ پولیو ورکرز کلمہ گو ہیں۔ یہ اپنا رزق کمانے کو انتھک سخت نوکری کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد ڈیلی ویجز والی ہے۔ یہ بیچارے سوسائٹی کے مسکین لوگ ہیں۔ نوجوان لڑکیاں ہیں جو اپنا گھر چلانے کو اپنے ماں باپ کا سہارا بننے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے اخراجات اٹھانے کو 750 روپے روزانہ پر سردی گرمی میں گلی گلی پھر کر اپنا کام کرتی ہیں۔ جو مرد ورکر ہیں وہ اپنے بال بچے پالنے کو نوکری کر رہے ہیں۔ ایسی نوکری کہ گرمی میں پسینہ آنکھوں میں گرتا ہے اور سردی میں بدن کانپتا رہتا ہے۔

سمجھ نہیں آتی اس ملک میں کیا کیا جائے، کیا کہا جائے، کیا لکھا جائے۔ یہ جہنمی معاشرہ ہے۔ یہاں کوئی خدا خوفی نہیں۔ یہاں کوئی انصاف نہیں کوئی معیار کوئی قانون نہیں ۔ مذہبی جنونیت نے اس ملک کو جہنم بنا ڈالا ہے۔ یہ بیچاری غریب محنت کش لڑکیاں کہ جن پر گھریلو نامساعد حالات کے سبب لڑکپن کے بعد اگلا قدم ہی ذمہ داری کی عمر رسیدگی میں پڑتا ہے، جن پر جوانی آتی ہی نہیں، جن کی زندگی روزی کی چکی میں پس کر رہ جاتی ہے ان کو مارنے سے اگر جنت ملتی ہے تو آپ کی جنت پر تھو۔

مزید پڑھیں۔۔۔سیکھنے اور سکھانے کا عمل آجاؤ مل کر سکھاتے ہیں

میں ان کے ساتھ دو سال سے کام کر رہا ہوں۔ شہر شہر، قریہ قریہ، صوبہ صوبہ ان کے ساتھ پولیو مہم پر پھرتا ہوں۔ بطور کنسلٹنٹ اقوام متحدہ یہ میری ڈیوٹی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کوئی بیوہ ہے جو اپنے بچے پالنے کو اس جاب پر لگی ہے، کوئی اپنی پڑھائی کا خرچ اٹھانے کو یہ کام کر رہا ہے، کسی کی گھریلو مجبوریاں ایسی ہیں کہ جب وہ بتاتے ہیں تو مجھ سے مکمل سنا نہیں جاتا۔ ان کو مار کر کونسی جنت میں محل تعمیر ہوتا ہے ؟

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جب موسم کی سختی سے تھک کر دم بھر کو کام سے پانی کی بریک لینے کو کہیں بیٹھتے ہیں تو یہ پولیو ورکر مجھ سے اکثر ایک ہی سوال پوچھتے ہیں “سر آپ کی تنخواہ کتنی ہے ؟ سر ہمارے ڈیلی ویجز کب بڑھے گیں ؟ ایک ماہ بعد تو کبھی دو ماہ بعد پولیو مہم آتی ہے اور پانچ دن کی پولیو مہم کا ہم کو صرف 3750 ملتا ہے”۔ میں ان کو کبھی اپنی تنخواہ نہیں بتاتا۔ صرف اسی سوچ کے پیش نظر کہ یہ سن کر پریشان نہ ہو جائیں کہ ہمیں صبح تا شام اتنی مشقت کر کے اتنا ملتا ہے اور اس بابو کو اتنا زیادہ ۔۔ میں ہنس کر ٹال دیتا ہوں کہ جھوٹ بھی نہیں کہا جاتا۔

مندر جلانے والے اہلیان کرک نے پولیو ٹیم پہ حملہ کر کے ایک ورکر کو قتل کر دیا۔

اس ملک میں ظلم کی جابجا پھیلی داستانوں کا سرا بھی تو نہیں ملتا۔ ایک سرا ہاتھ نہیں آتا کہ دوسرا سانحہ بیت جاتا ہے۔ سانحہ در سانحہ معمولات زندگی بن چکے ہیں۔ آنکھ زیادہ دیر نم نہیں رہ سکتی۔ خشک ہو جاتی ہے۔ اب تو آنسو بھی سوچ کر ٹپکتے ہیں کہ ان کو اپنے رائیگاں جانے کا علم ہو چکا ہے۔ دل پر چوٹ لگ لگ کر دل بھی پتھر ہو چلے ہیں۔ بنام مذہب جہالت کا ننگا ناچ دہائیوں سے جاری ہے۔ وہ ڈیلی ویجز ورکر ہیں اور ہم سب ڈیلی ویجز تماشائی ہیں بس۔ ہم کو اجرت صدمہ سہنے کی ملتی ہے۔ اجرت یہی کہ اپنا سر تا پا بدن سلامت ہے اور اسی پر صد شکر۔ غیروں کے لئے کیوں اٹھے کوئی، کیوں کہے کوئی، کیوں بولے کوئی اور کیوں چلے کوئی۔

کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ میدان حشر یہیں لگے گا۔ یہیں سے اٹھے گا شور محشر، یہیں پر روز حساب ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *