ایک ہی جیسا شیشہ ہوتا ہے. اس شیشے کا گول ٹکڑا لیں،

ایک ہی جیسا شیشہ ہوتا ہے. اس شیشے کا گول ٹکڑا لیں،

ایک ہی جیسا شیشہ ہوتا ہے. اس شیشے کا گول ٹکڑا لیں،

اس کے کنارے پالش کر کے اس کے پیٹ سے اسے پتلا کردیں تو یہ محدب یعنی convex بن جاتا ہے. پیٹ پالش کر کے کناروں سے پتلا کر دیں تو معقر یعنی concave بن جاتا ہے. بظاہر ایک ہی شیشہ ہوتے شکل کی یہ تبدیلی دونوں کا استعمال الگ کر دے گی.

محدب عدسہ پھر خوردبین کا کام کرتا ہے یا قریب کی نظر کے چشمے میں جگہ بناتا ہے جبکہ معقر عدسہ دوربین بن جاتا ہے یا اگر دور کی نظر کمزور ہو تو دور کی عینک میں دنیا دکھانے لگتا ہے. ہم انسان شیشہ نہیں ہوتے جس کو پالش کر کے کسی ایک کام کیلئے فریم میں جوڑ دیا جائے. ہمیں ہر کام کیلئے اپنی صلاحیت اپنے عمل کو اپنی ضرورت پر پالش کرنا ہوتا ہے.

ایک ہی جیسا شیشہ ہوتا ہے. اس شیشے کا گول ٹکڑا لیں،

آپ دیکھیں کچھ لوگ دور اور طویل منصوبے بہت بناتے ہیں. ان کی شخصیت معقر عدسے کی طرح ہو جاتی ہے. ان کو پھر قریب اور روز مرہ کی ذمہ داریاں نظر نہیں آتیں اس لئے ٹال مٹول یعنی procrastination سے کام چلا کر فوری ضروری ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں. کچھ لوگ روزمرہ یا قریب کی ذمہ داریوں میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ کل یعنی مستقبل کیلئے ان کے پاس کوئی مقصد کوئی منزل ہی نہیں ہوتی.

انسان شیشہ نہیں ہے بلکہ کُل کائنات کو بنانے والے کی کاریگری کا ایک کمال کاریگر ہے. آپ کی کاریگری آپ کی اپنی شخصیت سازی ہے. اپنی وہ تعمیر جس کے پاس اپنے ہر چیلنج کو دیکھنے اور سمجھنے کا الگ عدسہ ہو.

ریاض علی خٹک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *