لاہور شہر کا نام سنتے ہی اِس خوبصورت شہروں کی یاد آ جاتی ہے
لاہور شہر کا نام سنتے ہی اِس خوبصورت شہروں کی یاد آ جاتی ہے
القاب اور اُس کے حوالے سے سنے گئے ۔محاورے بے ساختہ کانوں میں گونجنے لگتے ہیں ۔یہ تاریخی شہر کتنا اہم اور قدیم ہے، اُس کا اندازہ اِس حالیہ تحقیق سے لگائیے ۔کہ لاہور اور اس کے اردگرد 460 تاریخی عمارتیں موجود ہیں، جو ماہرین کے ۔مطابق دنیا کے کسی بھی شہرمیں اِس تعداد میں موجود نہیں۔ مگر اوروں کی بات تو چھوڑئیے، اکثر جدی پشتی لاہوری بھی دوچار کے ۔علاوہ باقی تاریخی عجائب سے واقف نہیں۔
دو چار سے دنیا واقف ہے، گمنام نجانے کتنے ہیں
راوی کنارے بستے اِس شہر کا ’’راوی‘‘ گرچہ کافی عرصے۔ سے خاموش ہے مگر یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جس پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں اور جس کی ۔مدحت میں سب سے زیادہ دلنشیں شعر کہے، دلکش انشائیے لکھے گئے۔یہ قدیم ترین شہر گویا تاریخ کی کان میں پڑا ایک ناتراشیدہ قیمتی پتھر تھا، جسے مغلوں نے صاف کیا۔ اور تراش کر ایک ایسے خوبصورت نگینے کی صورت دے دی جس کی خوبصورتی اور جھلملاہٹ بلاشبہ کوہِ نور ہیرے ۔سے بھی بڑھ گئی۔
لاہور کو اگر دوسرے شہروں ۔کے قارئین پاکستان کا دل کہے جانے پر معترض ہوں تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ابھی پاکستان کا نقشہ دیکھیے اور بتائیے کہ سینۂ پاکستان میں اگر کوئی دل دھڑکتا ہے۔ تو وہ بھلا لاہور کے سوا اور کون سا شہر ہے۔عالم میں انتخاب اِس شہرِ زرنگار کو باغوں کا شہر کہا جاتا ہے ۔تو کیا غلط ہے۔اِس بے بدل شہر کے کسی باغیچے میں یا بیچوں بیچ بہتی ’’بیدیاں‘‘ نہرکے کنارے، اداسیوں کا ۔صحرا بنے قلوب بھی، چند ہی ساعتوں میں باغ باغ ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں۔۔۔ہم سب اتنے ناخوش کیوں ہیں اس کی آخری واجہ کیا ہے
لاہوریوں کے لیے زندہ دلانِ لاہور کا لقب بھی مشہور ہے اور ٹھیک ہی مشہور ہے کہ ہزارہا مصائب کے ساتھ زندگی کاٹتے اِن زندہ دلوں کے بات بے بات چٹکلے اورگونج دار قہقہے دنیا بھر میں اُن کی شناخت بن چکے ہیں۔سو دوستو! وہ اگر اپنے شہر کی رویت کے حوالے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’جنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں‘‘تو اُن سے بحث بالکل نہ کرنا چاہیے، بلکہ فوراً اُن سے ان کا پتا طلب کر کے اگلے ہی ہفتے اپنی پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر مہر ثبت کرنے کے لیے، اُن کے گھر پہنچ جانا چاہیے۔
بھئی اگر اپنی پیدائش کو ثابت کرنے کے بہانے ہی زندگی میں ایک بار لاہور ویکھ لیا جائے اور لاہوریوں کی بےمثال مہمانی کے مزے لوٹ لیے جائیں تو یہ نقصان کا سودا تو نہیں نا۔لاہوریوں کی خوش خوراکی کو بھی شاید اہلِ گوجرانوالہ کے سوا کوئی ٹکر نہیں دے سکتا کہ خوش خوراکی کے یہ ناقابلِ یقین و ناقابل بیاں اور حیرت انگیز کم عبرت انگیز زیادہ مناظر ہم خود کئی بار پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ چکے۔لاہور کا قصیدہ پڑھتے پڑھتے خیال آیا کہ اکثر قارئین کا یہ سطور پڑھتے ہوئے شاید حیرت سے برا حال ہورہا ہو کہ آج یہ یکایک اس فارغ بابا کو ’’فضائل لاہور‘‘ مرتب کرنے کی بھلا کیا سوجھی؟
لاہور شہر کا نام سنتے ہی اِس خوبصورت شہروں کی یاد آ جاتی ہے
تو بھئی سیدھی، صاف اور دو ٹوک بات یہ ہے کہ بابا ٹنڈوآدمی چالباز تو ہرگز نہیں، چٹورا بھی نہیں مگر ہاں! شہرِ لاہور میں ایک عدد چاند چڑھانے کا چاؤ ضرور دل میں رکھتا ہے،سو اِسی لیے رات کے اِس سمے کیلنڈر نکالے چارشنبہ 25 نومبر کو پاکستان کے ’’قدمین شریفین‘‘ سے’’دل‘‘ تک کے سفر کا چالا (نیک ساعت) دیکھ رہا،تو اِس پوسٹ کو اب آپ دو غزلہ کہیے یا پرانے بادشاہوں کے سامنے پڑھا جانے والا قصیدہ… ہمیں بہرحال لاہور جانے سے غرض ’’گونگے کی چائے‘‘ پینے سے ہے نہ ’’پھجے کے پائے‘‘ کھانے سے… ہمیں غرض ہے تو بس اپنے لاہوری دوستوں کی دید سے۔ اور اِس دید کے لیے بہانہ بنی ہے ایک دوست کی شادی۔ جو ہو رہی دسمبر کے آخری عشرے میں،تو اے لاہور! ہم آرہے ہیں
بابا ٹنڈوآدمی
Leave a Reply