ہم سب اتنے ناخوش کیوں ہیں اس کی آخری واجہ کیا ہے

ہم سب اتنے ناخوش کیوں ہیں اس کی آخری واجہ کیا ہے

ہم سب اتنے ناخوش کیوں ہیں اس کی آخری واجہ کیا ہے

اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ۔ ہم سب اپنے آباواجداد سے بلکہ پچھلے ہر زمانے کے انسان سے مقابلتاً بہت ہی۔ زیادہ آسانیوں میں ہیں۔ آج ہم کہہ سکتے ہیں ۔کہ ہمارے بدن ہمہ قسم کی عیاشیوں میں گویا سرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں۔مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم پچھلے ۔ہر زمانے کے انسان کے مقابلے میں سب سے زیادہ ناخوش بھی ہیں۔ جذباتی۔ذہنی و نفسیاتی طور پر بہت ہی زیادہ ناآسودہ۔

بظاہر یہ تضاد کیوں ہے؟

کیوں کہ خوشی کا تعلق آسانی اور جسمانی راحت کے ساتھ نہیں ہے۔ خوشی کا تعلق ذہنی و روحانی آسودگی کے ساتھ ہے۔ہم سب جو اپنے اپنے روزمرہ میں مگن رہتے ۔اور خوش رہ پاتے ہیں تو ہماری رائے میں اس کی دوبڑی وجوہ ہیں: اُن میں سے ایک تو بھول جانے کی نعمت ہے۔ہمارا دماغ خودکار طریقے سے تکلیف دہ یادوں کو دفن کرتا رہتا ہے۔ اور خوش گوار یادوں کو یاد رکھتا ہے،
اِسی لیے شاید ہم میں سے اکثر ناسٹلجک ہوتے ہیں۔ اور ہمیں اپنا ماضی اپنے حال سے زیادہ اچھا لگتا ہے،

مزید پڑھیں۔۔یونیفارم الیکٹرک فیلڈ میں پوٹینشل ڈفرینس آج ہم یہ ثابت کریں گے

اوردوسری وجہ جو ہم حال میں خوش رہ پاتے ہیں، وہ بھی قدرت کی ایک نعمت ہے کہ اس نے ہمارے بیرونی دنیا سے روابط (حواس) محدود رکھے ہیں، بس ضرورت کے مطابق۔کیوں کہ جب سننے دیکھنےکے حواس کادائرہ کسی سپرہیروکی طرح وسیع ہوجائے، اور دیکھنے والے کو اپنی محدود سی فطری دنیا کے دائرے سے باہر جھانکنے کا موقع ملتا رہے تو جینا محال ہوجاتاہے۔جیسے قدرتی حواس کے ذریعے انسان کو نہیں معلوم ہوتا کہ کسی اور گھر میں یا مثلا برابر والے کمرے میں ہی ہماری بابت کیا باتیں ہورہی ہیں۔
اور وہ تو ہوتی ہی ہیں۔

عین اس وقت بھی ہم سب کے بارے میں کہیں نہ کہیں کوئی منفی بات ہورہی ہوگی، مضحکہ اڑایا جارہا ہوگا، لیکن ہم سب سکون میں ہیں، اس لیے کہ ہم وہ سب نہیں جانتے،مسئلہ مگر آج یہ ہورہا ہے کہ اپنے حال میں مگن رہنے اور خوش رہنے میں معاون قدرت کی یہ دو بڑی نعمتیں ہم نے اپنے ہاتھوں زائل کرنا شروع کردی ہیں۔قدرتی یادداشت چوں کہ”میڈ ان قدرت“ہے اور قدرت بہت رحم دل ہے، سو قدرتی یادداشت کا نظام انسان دوست ہے،مصنوعی یادداشت مگرچوں کہ”میڈ ان انسان“ہے، سو بہت سفاک ہے،اور یہ ہماری زندگیوں میں اتنی دخیل ہوچکی ہے

مزید پڑھیں۔۔ایک سچی کہانی ہے جو میں نے اپنی دادی اماں سے سنی تھی

کہ یہ ہمارے زخموں کو مندمل نہیں ہونے دیتی، یہ ہماری چوٹیں بھی ہمیشہ تازہ اور ہری رکھتی ہے۔فیس بک میموری ہو یا موبائل میموری کی تصویروں اور ویڈیوز، یہ خوش کرنے سے زیادہ ہمیں غمگین کردیتی ہیں۔اوردوسری بڑی نعمت بھی آج دنیا کے بہت ہی کم انسانوں کو میسر ہے۔ہم ہر طرح کی معلومات کے سیلاب کے سفاک بہاؤ میں بہتے رہنے کے لیے گویا مجبور ہوگئے ہیں۔ہماری آنکھیں اور کان اب انسانی آنکھیں اور کان نہیں رہے، وہ مافوق الفطرت ہوچکے ہیں۔

دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، والا محاورہ اب بہت پرانا ہوچکا، اب تو درو دیوار ہی نہیں فضائیں بھی ہماری آنکھیں اور کان بنی ہمہ وقت ہماری ”خدمت“ کے لیے گویا مستعد کھڑی رہتی ہیں۔پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا،کے ہاتھوں ہمارا دماغ بالکل پگلا گیا ہے،وہ جو ہمیں ہر وقت ٹھنڈا اور معتدل رکھنے کے لیے کوشاں رہتا تھا، اب خود بھٹی بنا رہتا ہے۔اب خوشی، مسرت، تتلیاں اور کلیاں بہت کم اور مہنگی ہوگئی ہیں جب کہ دنیا بھر کی مصیبتیں، حوادث، تکلیفیںبچوں و خواتین پر بدترین ظلم کے بصری متحرک مناظر اور میتوں کے چہرے اور ان پر بھنکتی مکھیاں بھی،

ہم سب اتنے ناخوش کیوں ہیں اس کی آخری واجہ کیا ہے

یہ سب کچھ ہمیں ہمارے پچھلوں کے مقابلے میں کروڑوں گنا زیادہ دیکھنے سننے کو مفت میں مل رہا ہے۔اور یہی نہیں، ہماری بابت لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں، پوسٹس، تبصرے، اسکرین شاٹس، فون کال، میسیجز…غیبتیں سب کچھ بہت ارزاں ہوگیا ہے۔جی ہاں اسی لیے ہم انسانی تاریخ کے سب سے ناخوش دور سے گزر رہےہیں۔

محمد فیصل شہزاد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *